مغلیہ سلطنت

 

The Mughal Empire


مغلیہ سلطنت











مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔



مغلیہ حدود 1700ء

دار الحکومتآگرہ
(1526 تا1540؛ 1555تا1571)
فتح پور سیکری
(1571تا1585)
دہلی
(1648 تا1857)
عام زبانیںفارسی (آغاز میں چغتائی ترک بھی; آخر میں اردو بھی)
حکومتبادشاہت ، وحدانی ریاست
مع وفاقی نظام
شاہان مغل 
• 1526–1530
بابر
• 1530–1539, 1555–1556
ہمایوں
• 1556–1605
اکبر
• 1605–1627
جہانگیر
• 1628–1658
شاہجہاں
• 1658–1707
اورنگزیب
• 
بہادرشاہ اول
• 
معزالدین جہاندار شاہ
تاریخی دورابتدائی عہدِ جدید
• جنگ پانی پت 1526ء
21 اپریل 1526
• جنگ آزادی ہند 1857ء
20 جون 1858
رقبہ
17003,200,000 کلومیٹر2 (1,200,000 مربع میل)
آبادی
• 1700
150000000

سلطنتِ مغلیہ کا بانی ظہیر الدین بابر تھا، جو تیمور خاندان کا ایک سردار تھا۔ ہندوستان سے پہلے وہ کابل کا حاکم تھا۔ 1526ء کو سلطنتِ دہلی کے حاکم ابراہیم لودھی کے خلاف مشہورِ زمانہ پانی پت جنگ میں بابر نے اپنی فوج سے دس گُنا طاقتور افواج سے جنگ لڑی اور انہیں مغلوب کر دیا کیونکہ بابر کے پاس بارود اور توپیں تھیں جبکہ ابراہیم لودھی کے پاس ہاتھی تھے جو توپ کی آواز سے بدک کر اپنی ہی فوجوں کو روند گئے۔ یوں ایک نئی سلطنت کا آغاز ہوا۔ اس وقت شمالی ہند میں مختلف آزاد حکومتیں رائج تھیں۔ علاوہ ازیں وہ آپس میں معرکہ آرا تھے۔

ظہیر الدین محمد بابر

 

ظہیر الدین محمد بابر (پیدائش: 1483ء - وفات: 1530ء)    ہندوستان میں مغل سلطنت کا بانی تھا۔ انہیں ماں پیار سے بابر (شیر) کہتی تھی۔ اس کاباپ عمر شیخ مرزا فرغانہ (ترکستان) کا حاکم تھا۔ باپ کی طرف سے تیمور اور ماں قتلغ نگار خانم کی طرف سے چنگیز خان کی نسل سے تھا۔ اس طرح اس کی رگوں میں دو بڑے فاتحین کا خون تھا۔ بارہ برس کا تھا کہ باپ کا انتقال ہو گیا۔ چچا اور ماموں نے شورش برپا کردی جس کی وجہ سے گیارہ برس تک پریشان رہا۔ کبھی تخت پر قابض ہوتا اور کبھی بھاگ کر جنگلوں میں روپوش ہوجاتا۔ بالآخر 1504ء میں بلخ اور کابل کا حاکم بن گیا۔ یہاں سے اس نے ہندوستان کی طرف اپنے مقبوضات کو پھیلانا شروع کیا۔

پہلی جنگ پانی پت :     21 اپریل 1526ء
مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر اور سلطان ابراہیم لودھی شاہ دہلی کے درمیان میں 1526ء میں پانی پت کے میدان میں ہوئی۔ سلطان ابراہیم لودھی کی فوج ایک لاکھ جوانوں پر مشتمل تھی۔ اور بابر کے ساتھ صرف بارہ ہزار آدمی تھے۔ مگر بابر خود ایک تجربہ کار سپہ سالار اور فن حرب سے اچھی طرح واقف تھا۔ سلطان ابراہیم لودھی کی فوج نے زبردست مقابلہ کیا۔ مگر شکست کھائی۔ سلطان ابراہیم لودھی اپنے امرا اور فوج میں مقبول نہ تھا۔ وہ ایک شکی مزاج انسان تھا، لاتعداد امرا اس کے ہاتھوں قتل ہوچکے تھے، یہی وجہ ہے کہ دولت خان لودھی حاکم پنجاب نے بابر کو ہندوستان پر حملہ کررنے کی دعوت دی اور مالی وفوجی مدد کا یقین دلایا۔

بابراور ابراہیم لودھی کا آمناسامنا ہوا تو لودھی فوج بہت جلدتتر بتر ہو گئی۔ سلطان ابراہیم لودھی مارا گیا اور بابر فاتح رہا۔ پانی پت کی جنگ میں فتح پانے کے بعد بابر نے ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔ بابر فاتحانہ انداز میں دہلی میں داخل ہوا۔ یہاں اس کا استقبال ابراہیم لودھی کی ماں بوا بیگم نے کیا۔ بابر نے نہایت ادب واحترام سے اسے ماں کا درجہ دیا۔ دہلی کے تخت پر قبضہ کر نے کے بعد سب سے پہلے اندرونی بغاوت کو فرو کیا پھر گوالیار، حصار، ریاست میوات، بنگال اور بہار وغیرہ کو فتح کیا۔ اس کی حکومت کابل سے بنگال تک اور ہمالیہ سے گوالیار تک پھیل گئی۔ 26 دسمبر، 1530ء کو آگرہ میں انتقال کیا اور حسب وصیت کابل میں دفن ہوا۔ اس کے پڑپوتے جہانگیر نے اس کی قبر پر ایک شاندار عمارت بنوائی جو بابر باغ کے نام سے مشہور ہے۔ بارہ سال کی عمر سے مرتے دم تک اس بہادر بادشاہ کے ہاتھ سے تلوار نہ چھٹی اور بالآخر اپنی آئندہ نسل کے لیے ہندوستان میں ایک مستقل حکومت کی بنیاد ڈالنے میں کامیاب ہوا۔ تزک بابری اس کی مشہور تصنیف ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ نہ صرف تلوار کا دھنی تھا، بلکہ قلم کا بھی بادشاہ تھا۔ فارسی اور ترکی زبانوں کا شاعر بھی تھا اور موسیقی سے بھی خاصا شغف تھا۔


مزیدمعلومات کے لئے👈



نصیرالدین محمد ہمایوں




مغلیہ سلطنت کا دوسرا حکمران جس نے 30 دسمبر 1526ء سے 17 مئی 1540ء تک اور بعد ازاں 22 فروری 1555ء سے 27 جنوری 1556ء تک حکومت کی۔ مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیرالدین محمد بابر کا بیٹا اور جلال الدین اکبر 
کا والد۔

س1530ء تا 1540ء اور پھر 1555ء تا 1556ء مغلیہ سلطنت کا حکمران۔ بانئ سلطنت ظہیر الدین بابر کا بیٹا تھا۔ اس کے تین اور بھائی کامران، عسکری اور ہندالی تھے۔ 17 مارچ، 1508ء میں کابل میں پیدا ہوا۔ اس کی والدہ کا نام ماہم بیگم تھا۔ ہمایوں نے ترک، فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔ اسے حساب، فلسفہ، علم نجوم اور علم فلکیات سے خصوصی دلچسپی تھی۔ سپہ گری اور نظم و نسق کی اعلیٰ تربیت حاصل کی اور صرف 20 سال کی عمر میں بدخشاں کا گورنر مقرر ہوا۔ اس نے پانی پت اور کنواہہ کی لڑائیوں میں شمولیت اختیار کی۔ اس کی خدمات کے صلے میں اسے حصار فیروزہ کا علاقہ دے دیا گیا۔ 1527ء کے بعد اسے دوبارہ بدخشاں بھیج دیا گیا۔ 1529ء جب وہ آگرہ واپس لوٹا تو اسے سنبھل کی جاگیر کے انتظامات سونپے گئے۔

بغاوتیں اور سازشیں ترميم

بابر کی وفات کے فوراً بعد ملک میں چاروں طرف بغاوتیں پھیل گئیں۔ بابر نے ہندوستانی حکومت اور سلطنت افغان حکمران ابراہیم لودھی کو قتل کرکے حاصل کی تھی اب افغانوں کو شدت سے احساس ہواکہ افغان حکومت جیسی بھی تھی ان کی اپنی تھی مگر اب وہ مغلوب ہو چکے تھے اس لیے وہ اپنی حکومت کی بحالی کے لیے میدان میں آ گئے انہیں محمود لودھی، بہادر شاہ اور شیر خان سوری جیسے سردار مل گئے افغان امرا کو اس بات کا احساس تھا کہ ہندوستان پر ان کا حق ہے اور مغلوں کو وہ ملک سے نکال باہر کرسکتے ہیں۔ افغانوں کو محمود لودھی پر پورا اطمینان تھا۔ تمام افغان سرداروں نے تخت کے حصول کے لیے ہرطرح کی ممکن کوششیں شروع کر دیں۔ اس کے علاوہ بہار میں شیر خان نے اپنی فتوحات و مہمات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ گجرات میں بہادر شاہ ہمایوں کو ہندوستان سے نکال دینے کے لیے مصروفِ جِدوجُہد تھا۔ ہمایوں کے کردار کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ وہ اپنے دشمنوں کا مکمل خاتمہ نہیں کرتاتھا بلکہ ایک معمولی فتح کے بعد جشن مناتا اپنے امرا میں تمغے اور انعامات تقسیم کرتا۔ جبکہ اس کے دشمن اس کے خلاف جنگی تیاریوں میں مصروف ہوتے تھے جبکہ وہ کتب خانوں میں مطالعہ میں مصروف رہتاتھا دشمن کو معاف کرنا اس کی فطرت تھی اس نے بار بار شیرخان سوری کے حلف ،قسموں اور وعدوں پر اعتبار کیا اور اسے بار بار معاف کیا اور اسے ایک معمولی باغی سے زیادہ اہمیت نہ دی یہاں تک کہ اس نے 1540ء میں ہمایوں کو شکست دے کر ہندوستان سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اب وہ شیر خان سے شیر شاہ بن گیا افغانوں نے اسے اپنا متفقہ بادشاہ تسلیم کر لیا۔

مزیدمعلومات کے لئے👈




جلال الدین اکبر




سلطنت مغلیہ کے تیسرے فرماں روا (ظہیر الدین محمد بابر اور ہمایوں کے بعد)،ہمایون کابیٹا تھا۔ ہمایوں نے اپنی جلاوطنی کے زمانے میں سندھ کے تاریخی شہر دادو کے قصبے "پاٹ" کی عورت حمیدہ بانو سے شادی کی تھی۔ اکبر اُسی کے بطن سے 1542ء میں سندھ میں عمر کوٹ کے مقام پر پیدا ہوا۔ ہمایوں کی وفات کے وقت اکبر کی عمر تقریباً چودہ برس تھی اور وہ اس وقت اپنے اتالیق بیرم خان کے ساتھ کوہ شوالک میں سکندر سوری کے تعاقب میں مصروف تھا۔ باپ کی موت کی خبر اسے کلانور ضلع گروداسپور (مشرقی پنجاب) میں ملی۔ بیرم خان نے وہیں اینٹوں کا ایک چبوترا بنوا کر اکبر کی رسم تخت نشینی ادا کی اور خود اس کا سرپرست بنا۔ تخت نشین ہوتے ہی چاروں طرف سے دشمن کھڑے ہو گئے۔ ہیموں بقال کو پانی پت کی دوسری لڑائی میں شکست دی۔ مشرق میں عادل شاہ سوری کو کھدیڑا۔ پھر اس نے اپنی سلطنت کو وسعت دینی شروع کی۔

مغل ہندوستان نے ایک مستحکم اور مستحکم معیشت تیار کی ، جس کے نتیجے میں تجارتی توسیع اور ثقافت کی زیادہ تر سرپرستی ہوئی۔ اکبر خود آرٹ اور ثقافت کا سرپرست تھا۔ انہیں ادب کا شوق تھا ، اور سنسکرت ، اردو ، فارسی ، یونانی ، لاطینی ، عربی اور کشمیری میں لکھی گئی 24،000 سے زیادہ جلدوں کی لائبریری تشکیل دی ، جس کے عملے میں بہت سارے اسکالرز ، مترجم ، آرٹسٹ ، خطاط ، مصنفین ، کتاب ساز اور قارئین موجود تھے۔ اس نے خود کو تین اہم گروہوں کے ذریعے خود کیٹلاگ میں شامل کیا۔ [17] اکبر نے فتح پور سیکری کی لائبریری کو خصوصی طور پر خواتین کے لئے بھی قائم کیا ، [18] اور اس نے فیصلہ دیا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کی تعلیم کے لئے اسکول پورے دائرے میں قائم کیے جانے چاہئیں۔ انہوں نے کتاب سازی کو بھی ایک اعلی فن بننے کی ترغیب دی۔ [17] بہت سارے عقائد ، شاعروں ، معماروں اور کاریگروں کے مقدس انسانوں نے مطالعہ اور گفتگو کے لئے پوری دنیا سے اس کے دربار کو آراستہ کیا۔ دہلی ، آگرہ ، اور فتح پور سیکری میں اکبر کی عدالتیں فنون ، خطوط اور سیکھنے کے مراکز بن گئیں۔ اسلامی ثقافت نے مقامی ہندوستانی عناصر کے ساتھ مل جانا شروع کیا ، اور مغل طرز کے فنون ، مصوری اور فن تعمیر کے ذریعہ ایک الگ ہند فارسی ثقافت ابھری۔ آرتھوڈوکس اسلام سے مایوسی اور شاید اپنی سلطنت کے اندر مذہبی اتحاد کو قائم کرنے کی امید میں ، اکبر نے دین الہٰی کو جنم دیا ، جو ایک ہم آہنگی مذہب ہے جو بنیادی طور پر اسلام اور ہندو مذہب کے ساتھ ساتھ زرتشت پسندی اور عیسائیت کے کچھ حصوں سے اخذ کیا گیا ہے۔

اکبر کے دور حکومت نے ہندوستانی تاریخ کے دوران کو نمایاں طور پر متاثر کیا۔ اس کے دور حکومت میں ، مغل سلطنت جسامت اور دولت میں تین گنا بڑھ گئی۔ انہوں نے ایک طاقتور فوجی نظام تشکیل دیا اور موثر سیاسی اور معاشرتی اصلاحات کا آغاز کیا۔ غیر مسلموں پر فرقہ وارانہ ٹیکس ختم کرکے اور انہیں اعلی سول اور فوجی عہدوں پر مقرر کرکے ، وہ پہلا مغل حکمران تھا جس نے آبائی مضامین کا اعتماد اور وفاداری حاصل کی۔ انہوں نے سنسکرت ادب کا ترجمہ کیا ، اس نے مقامی تہواروں میں شرکت کی ، اس بات کا احساس کرتے ہوئے کہ مستحکم سلطنت کا انحصار اپنے مضامین کی باہمی تعاون اور نیک خواہش پر ہے۔ اس طرح ، مغل کے دور حکومت میں کثیر الثقافتی سلطنت کی بنیادیں ان کے دور حکومت میں رکھی گئیں۔ اکبر کو اس کے بیٹے ، شہزادہ سلیم نے بعد میں شہنشاہ بنایا ، بعد میں اسے جہانگیر کے نام سے جانا جاتا تھا۔

مزید معلومات کے لئے👈



نورالدین جہانگیر




اکبر اعظم کے تین لڑکے تھے۔ سلیم، مراد اور دانیال(مغل خاندان)۔ مراد اور دانیال باپ کی زندگی ہی میں شراب نوشی کی وجہ سے مر چکے تھے۔ اکبر اعظم کی 1605ء میں وفات کے بعد شہزادہ سلیم نور الدین جہانگیر کے لقب سے تخت نشین ہوا۔ اس نے کئی مفید اصلاحات نافذ کیں:
کان اور ناک اور ہاتھ وغیرہ کاٹنے کی سزائیں منسوخ کیں۔
شراب اور دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال حکماً بند کیا۔
کئی ناجائز محصولات ہٹا دیے۔
خاص خاص دنوں میں جانوروں کا ذبیحہ بند کر دیا۔
فریادیوں کی داد رسی کے لیے اپنے محل کی دیوار سے ایک زنجیر لٹکا دی، جسے زنجیر عدل کہا جاتا تھا۔
شہزادہ خسرو کی بغاوت ترميم
1606ء میں اس کے سب سے بڑے بیٹے خسرو نے بغاوت کردی۔ اور آگرے سے نکل کر پنجاب تک جا پہنچا۔ جہانگیر نے اسے شکست دی۔ سکھوں کے گورو ارجن دیو بھی جو خسرو کی مدد کر رہے تھے۔ شاہی عتاب میں آ گئے۔ شہنشاہ نے گوروارجن دیو کو قید کرکے بھاری جرمانہ عائد کر دیاجس کو گورو نے ادا کرنے سے معذرت کی۔گورو کو شاہی قلعہ لاہور میں قید میں ڈال دیا گیا ایک روز گورو نے فرمائش کی کہ وہ دریائے راوی میں اشنان (غسل) کرنا چاہتے ہیں انہیں اس کی اجازت دے دی گئی غسل کے دوران گورو ارجن دیو نے دریا میں ڈبکی لگائی اور اس کے بعد وہ دکھائی نہ دیے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے دریائے راوی میں ڈوب کر خودکشی کرلی۔ جس مقام پر گورو نے دریامیں چھلانگ لگائی وہاں سکھوں نے ان کی سمادھی بنادی ہے۔ اس واقعہ سے مغلوں اور سکھوں کے درمیان نفرت کا آغاز ہواجس کے نتیجہ میں وسیع پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا سکھ مسلم دشمنی آج بھی جاری ہے ۔
1614ء میں شہزادہ خرم ’’شاہجہان‘‘ نے میواڑ کے رانا امرسنگھ کو شکست دی۔ 1620ء میں کانگڑہ خود جہانگیر نے فتح کیا۔ 1622ء میں قندھار کا علاقہ ہاتھ سے نکل گیا۔ جہانگیر ہی کے زمانے میں انگریز سر ٹامس رو سفیر کے ذریعے، پہلی بار ہندوستان میں تجارتی حقوق حاصل کرنے کی نیت سے آئے۔ 1623ء میں خرم نے بغاوت کردی۔ کیونکہ نورجہاں اپنے داماد شہریار کو ولی عہد بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ آخر 1625ء میں باپ اور بیٹے میں صلح ہو گئی۔
بادشاہ جہانگیر اپنی تزک جہانگیری میں لکھتے ہیں کہ عطر گلاب میرے عہد حکومت میں ملکہ نورجہاں کی والدہ نے ایجاد کیا تھا۔ جہانگیر مصوری اور فنون لطیفہ کا بہت شوقین تھا۔ اس نے اپنے حالات ایک کتاب توزک جہانگیری میں لکھے ہیں۔ اسے شکار سے بھی رغبت تھی۔ شراب نوشی کے باعث آخ

ری د

نوں میں بیمار رہتا تھا۔

مزیدمعلومات کے لئے👈

https://ur.m.wikipedia.org/wiki/%D9%86%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%86_%D8%AC%DB%81%D8%A7%D9%86%DA%AF%DB%8C%D8%B1



شاہ جہاں اعظم شہاب الدین محمد خرم



شاہ جہاں اعظم شہاب الدین محمد خرم
(مغل سلطنت کا پانچواں شہنشاہ) 

دور حکومت :

30 جنوری 1628ء – 31 جولائی 1658ء

(30 سال 6 ماہ 1 دن)

 

تاجپوشی :

پیر 8 جمادی الثانی 1037ھ/ 14 فروری 1628ء

بمقام آگرہ

 

پیشرو : 

جہانگیر

 

جانشین :

اورنگزیب عالمگیر

 

بیویاں :

اکبرآبادی محل (وفات 1677ء)

قندھاری محل (پیدائش 1594ء، شادی 1609ء)

ممتاز محل (پیدائش 1593ء، شادی 1612ء، وفات 1631ء)

حسینہ بیگم صاحبہ (شادی 1617ء)

موتی بیگم صاحبہ

قدسیہ بیگم صاحبہ

فتحپوری محل صاحبہ

سرہندی بیگم صاحبہ (وفات 1650ء کے بعد)

شریمتی منبھَوَتی بائیجی لال صاحبہ (شادی 1626ء)

 

اولاد :

حور النساء بیگم،

جہاں آرا بیگم ،

داراشکوہ ،

شاہ شجاع ،

روشن آراء بیگم ،

اورنگزیب ،

احمد بخش ،

ثریا بانو بیگم ،

نامعلوم الاسم نومولود

مراد بخش ،

لطف اللہ ،

دولت افضل

حسن آراء بیگم ،

گوہرہ بیگم

 

مکمل نام : 

اعلیٰ حضرت صاحب قرآنِ ثانی ابو المظفر شہاب الدین محمد خرم شاہجہاں اول

 

شاہی خاندان :

مغل

 

والد :

جہانگیر

 

والدہ : 

شہزادی مانمتی

 

تدفین :

تاج محل، آگرہ، سلطنت مغلیہ، مغل ہندوستان

 

مذہب :

اسلام

 

شاہجہاں برصغیر پاک و ہند میں پانچواں مغل شہنشاہ تھا۔ جہانگیر کی وفات کے بعد مختلف شہزادے دعویٰ شہنشاہی لے کر اُٹھے مگر شاہجہاں اپنی زور و صلاحیت کی بناء پر 1628ء میں تخت نشیں ہوا۔ وہ عظیم ماہر تعمیرات بھی تھا، اُس کے عہد کی تعمیرات کی نظیر ثانی نہیں ملتی۔ قریب 30 سال تخت نشیں رہے اور 1658ء میں اُنہیں معزول کردیا گیا اور مغلوں کا ایک اور عظیم شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر تخت نشیں ہوا۔

 

نام و القابات :

شاہجہاں کا اصل نام خرم ہے جبکہ کنیت ابو المظفرہے۔ لقب اعلیٰ حضرت صاحبِ قرآنِ ثانی ہے۔مورخین نے اِختصار سے کام لیتے ہوئے یہ نام تاریخ میں لکھا ہے: اعلیٰ حضرت صاحب قرآنِ ثانی ابو المظفر شہاب الدین محمد خرم شاہجہاں اول۔

مکمل نام مع القابات :

شاہنشاہ السلطان الاعظم والخاقان المکرم ملک السلطنت اعلیٰ حضرت ابو المظفر شہاب الدین محمد شاہجہاں اول صاحب قرآنِ ثانی پادشاہ غازی ظل اللہ فردوسِ آشیانی شہنشاہِ سلطنت الہِندیۃ والمُغلیۃ۔

شجرہ نسب :

شاہجہاں کے والد جہانگیر تھے، دادا اکبراعظم اور پردادا ہمایوں تھے جبکہ سکردادا بابر تھے۔

شاہجہاں کا شجرہ نسب :

شہاب الدین محمد شاہجہاں ابن نور الدین جہانگیر ابن جلال الدین محمد اکبر بادشاہ ابن نصیر الدین محمد ہمایوں بادشاہ ابن ظہیر الدین محمد بابر۔

والدین :

شاہجہاں کے والد مغل شہنشاہ جہانگیر تھے۔ شاہجہاں کی والدہ شہزادی مانمتی تھیں جو تاج بی بی بلقیس مکانی بیگم کے لقب سے مشہور تھیں۔ہندو مورخین نے شہزادی مانمتی کا نام جگت گوسائیں بھی لکھا ہے جس کی تائید اکثر مسلم مورخین نے بھی کی ہے۔

ولادت :

شاہجہاں کی ولادت بروز بدھ 30 ربیع الاول 1000ھ مطابق 15 جنوری 1592ء کو دارالسلطنت لاہور میں ہوئی۔ [1] شاہجہاں کی ولادت اُن کے دادا اکبر اعظم کی حکومت کے 36 ویں سال میں ہوئی۔ اُس وقت لاہور مغل سلطنت کا دارالسلطنت تھا اور مغل شہنشاہ اکبر اعظم 1586ء سے مع مغل شاہی خاندان کے یہیں مقیم تھا۔

1628ء کا نوروز :

1628ء میں شاہجہاں نے نوروز کا جشن بڑے تزک و اِحتشام کے ساتھ منایا۔ اِس تہوار کی تقدیس و احترام میں اضافہ کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ 4 شہزادے تخت کے چاروں اطراف کھڑے ہوئے اور شاہجہاں نے خاندان کو بیش بہا تحائف دئیے۔ اِن تحائف کی مالت لاکھوں روپوں میں تھی۔ آصف خان کے منصب کو بڑھا کر نو ہزار ذات سے نو ہزار سوار کردیا گیا۔ درباریوں کو بھی گراں قدر انعامات دئیے گئے۔

بطور شہنشاہِ ہند تخت سے معزولی :

اورنگ زیب نے جنگِ تخت نشینی کے دوران باقاعدہ اعلان جاری کیا تھا کہ اُس کی لڑائی صرف دارا شکوہ سے ہے اور باپ سے اُسے کوئی پرخاش نہیں۔ لیکن اورنگ زیب کی تخت نشینی سے لے کر 1666ء تک شاہجہاں قلعہ آگرہ میں قیام پزیر رہا۔

آخری ایام کے معمولات :

ملا صالح کمبوہ نے شہنشاہ شاہجہاں کے اُن اواخر ایام کا تذکرہ "عمل صالح میں کیا ہے جو شاہجہاں نے سنہ 1658ء سے 1666ء تک آگرہ کے قلعہ میں نظر بندی کی مدت میں گزارے۔

" شاہجہاں قلعہ آگرہ میں نظر بند تھے، اِس کے باوجود اُن کے فیض و کرم کا دروازہ کھلا رہا۔ ضرورت مند ہمیشہ اُن تک پہنچ کر اُن کے جود و اِحسان سے فیض یاب ہوئے۔ سید محمد قنوجی سال 32 جلوس کے آغاز سے ہی ہمیشہ شاہجہاں کی مجلسِ خاصہ میں حاضر رہتا، قرآن کریم کے نکتے اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرکے حاضرین کو مستفید کیا کرتا۔ اِس مدت میں شاہجہاں صبر و قناعت کے ساتھ قلعہ آگرہ میں گوشہ نشیں تھے۔ دِن رات کا زیادہ حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور فرض و سنت نمازیں ادا کرنے ، کلام اللہ کی تلاوت و کتابت میں بسر ہوتا۔ بزرگوں کے اقوال اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنا کرتے تھے، فیض و بخشش اور سخاوت کا دروازہ کھلا رہتا تھا۔ 

تعمیرات :

لال قلعہ

تاج محل

موتی مسجد

تخت طاؤس

حوالہ جات :

 ملا صالح کمبوہ: عمل صالح (شاہجہاں نامہ)، ص 17۔

 ملا صالح کمبوہ : عمل صالح، ص 550/551




اورنگ زیب عالمگیر محی الدین محمد




مغلیہ سلطنت کا چھٹے شہنشاہ جنھوں  نے 1658ء سے 1707ء تک حکومت کی۔
(پیدائش: 3 نومبر 1618ء— وفات: 3 مارچ
1707ء) مغلیہ سلطنت کا چھٹے شہنشاہ تھے جس نے 1658ء سے 1707ء تک حکومت کی۔ وہ مغلیہ سلطنت کے آخری عظیم الشان شہنشاہ تھے۔ ان کی وفات
سے مغل سلطنت زوال کا شکار ہو گئی۔

 سوانح

دورِ حکومت: ( 1658ء تا 1707ء) مغلیہ خاندان کا شہنشاہ، نام :محی الدین، اورنگزیب لقب، ان کے والد شاہجہان نے انھیں عالمگیر کا خطاب دیا۔ 3 نومبر ،1618ء کو مالوہ کی سرحد پر پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ ارجمند بانو بیگم تھیں۔ جو ممتاز محل کے نام سے مشہور تھیں۔ اورنگ زیب کی عمر دو سال کی تھی کہ شاہجہان نے اپنے باپ جہانگیر کے خلاف بغاوت کردی۔ اور بیوی بچوں کو لے کر چار سال تک بنگال اور تلنگانہ میں پھرتا رہا۔ آخر جہانگیر کے کہنے پر اپنے بیٹوں داراشکوہ اور اورنگ زیب عالمگیر کو دربار میں بھیج کر معافی مانگ لی۔ جہانگیرنے دونوں بچوں کو ملکہ نورجہاں کی نگرانی میں بھیج دیا۔

اورنگزیب کو سید محمد، میر ہاشم اور ملا صالح جیسے علام کی شاگردی کا موقع ملا۔ مغل بادشاہوں میں اورنگزیب عالم گیر پہلے بادشاہ ہیں جنھوں نے قرآن شریف حفظ کیا اور فارسی مضمون نویسی میں نام پیدا کیا۔ اس کے علاوہ گھڑ سواری، تیراندازی اور فنون سپہ گری میں بھی کمال حاصل کیا۔ سترہ برس کی عمر میں 1636ء دکن کا صوبیدار مقرر ہوئے۔ اس دوران میں اس نے کئی بغاوتوں کو فرو کیا۔ اور چند نئے علاقے فتح کیے۔ بلخ کے ازبکوں کی سرکوبی جس جوانمردی سے کی اس کی مثال تاریخ عالم میں مشکل سے ملے گی۔

شاہجہان کی بیماری کے دوران میں داراشکوہ نے تمام انتظام حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ داراشکوہ کی اس جلدبازی سے شاہجہان کی موت کی افواہیں پھیلنے لگیں اور ملک میں ابتری پھیل گئی۔ شاہ شجاع نے بنگال میں اپنی بادشاہت قائم کرلی اور آگرہ پر فوج کشی کے ارادے سے روانہ ہوا۔ بنارس کے قریب دارا اور شجاع کی فوجوں میں جنگ ہوئی جس میں دارا کو فتح اور شجاع کو شکست ہوئی۔ اورنگزیب نے مراد سے مل کر داراشکوہ کے مقابلے کی ٹھانی۔ اجین کے قریب دنوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا۔ اورنگزیب عالمگیر کو فتح ہوئی۔ ساموگڑھ کے قریب پھر لڑائی ہوئی جس میں اورنگزیب کو دوبارہ کامیابی ہوئی۔

اورنگزیب ابوالمظفر محی الدین کے لقب سے تخت پر بیٹھا اس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کی فضول رسمیں ختم کیں اور فحاشی کا انسداد کیا اور خوبصورت مقبروں کی تعمیر و آرائش ممنوع قرار دی۔ قوال، نجومی، شاعر موقوف کر دیے گئے۔ شراب، افیون اور بھنگ بند کردی۔ درشن جھروکا کی رسم ختم کی اور بادشاہ کو سلام کرنے کا اسلامی طریقہ رائج کیا۔ سجدہ کرنا اور ہاتھ اٹھانا موقوف ہوا۔ سکوں پر کلمہ لکھنے کا دستور بھی ختم ہوا۔ کھانے کی جنسوں پر ہرقسم کے محصول ہٹا دیے۔ 1665ء میں آسام، کوچ بہار اور چٹاگانگ فتح کیے اور پرتگیزی اور فرنگی بحری قزاقوں کا خاتمہ کیا۔ 1666ء میں سرحد کے شاعر خوشحال خان خٹک کی شورش اور متھرا اور علیگڑھ کے نواح میں جاٹوں کی غارت گری ختم کی۔ نیز ست نامیوں کی بغاوت فرو کی۔ سکھوں کے دسویں اور آخری گرو گوبند سنگھ نے انند پور کے آس پاس غارت گری شروع کی اور مغل فوج سے شکست کھا کر فیروزپور کے قریب غیر آباد مقام پر جا بیٹھے۔ جہاں بعد میں مکتسیر آباد ہوا۔ عالمگیر نے انھیں اپنے پاس دکن بلایا یہ ابھی راستے میں تھے کہ خود عالمگیر فوت ہو گیے۔

عالمگیر نے 1666ء میں راجا جے سنگھ اور دلیر خان کو شیوا جی کے خلاف بھیجا۔ انھوں نے بہت سے قلعے فتح کر لے۔ شیواجی اور اس کا بیٹا آگرے میں نظربند ہوئے۔ شیواجی فرار ہو کر پھر مہاراشٹر پہنچ گیا۔ اور دوبارہ قتل و غارت گری شروع کی۔ 1680ء میں شیواجی مرگیا تو اس کا بیٹا سنبھا جی جانشین ہوا یہ بھی قتل و غارت گری میں مصروف ہوا۔ عالمگیر خود دکن پہنچا۔ سنبھا جی گرفتار ہو کر مارا گیا۔ اس کا بیٹا ساہو دہلی میں نظربند ہوا۔ دکن کا مطالعہ کرکے عالمگیر اس نتیجے پرپہنچا کہ بیجاپور اور گولکنڈہ کی ریاستوں سے مرہٹوں کو مدد ملتی ہے اس نے 1686ء میں بیجاپور اور 1687ء میں گولگنڈا کی ریاستیں ختم کر دیں۔ اس کے بعد مرہٹوں کے تعاقب میں ہندوستان کے انتہائی جنوبی حصے بھی فتح کر لیے۔ مغلیہ سلطنت پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔

عالمگیر احمد نگر میں بیمار ہوئے اور 3 مارچ، 1707ء کو نوے برس کی عمر میں وفات ہوئی۔ وصیت کے مطابق اسے خلد آباد میں فن کیا گیا۔ خلدآباد سے قریب ایک مقام ہے جس کا نام اورنگ آباد ہے، اورنگ آباد میں اورنگ زیب کی مختلف یادگاریں آج بھی محفوظ ہیں۔ بڑا متقی، پرہیز گار ،مدبر اور اعلیٰ درجے کا منتظم تھا۔ خزانے سے ذاتی خرچ کے لیے ایک پائی بھی نہ لی۔ قرآن مجید لکھ کر ٹوپیاں سی کر گزارا کرتا تھا۔ سلجھا ہوا ادیب تھا۔ اُس کے خطوط رقعات عالمگیر کے نام سے مرتب ہوئے۔ اس کے حکم پر نظام سلطنت چلانے کے لیے ایک مجموعہ فتاوی تصنیف کیا گیا جسے تاریخ میں فتاوی عالمگیری کہا گیا۔ فتاویٰ عالمگیری فقہ اسلامی میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ بعض علما نے سلطان اورنگزیب کو اپنے دور کا مجدد بھی قرار دیا۔ پانچ بیٹے (بہادر شاہ،سلطان محمد اکبر،محمد اعظم شاہ، کام بخش،محمد سلطان)اور پانچ بیٹیاں (زیب النساء،زینت النساء،مہرالنساء،بدرالنساء،زبدۃالنساء)چھوڑیں۔ مشہور شاعر زیب النساء مخفی ان کی دختر تھیں۔ بیٹا بہادر شاہ اول باپ کی سلطنت کا وارث ہوا۔

مزید معلومات کے لئے👈




ابوالمظفر سراج الدین محمد بہادر شاه غازی




ابوالمظفر سراج الدین محمد بہادر شاه غازی۔اکبر شاہ ثانی کا دوسرا بیٹا جو لال بائی کے بطن سے تھا۔ ان کا سلسلہ نسب گیارھویں پشت میں شہنشاہ بابر سے ملتا ہے۔ یہ دہلی میں پیدا ہوئے۔ خاندان مغلیہ کا آخری بادشاہ اور اردو کا ایک بہترین و مایا ناز شاعر تھا، ابراہیم ذوق کے شاگرد تھے۔ ذوق کی وفات کے بعد مرزا غالب سے شاعری میں رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ 1252 ھ مطابق 1837ء کو قلعہ دہلی میں اس کی تخت نشینی کی 
رسم ادا کی گئی ۔
س1857ء کی پہلی جنگ آزادی کے وقت بہادر شاہ ظفر 82 سال کے تھے جب ان کے سبھی بچوں کا سر قلم کرکے ان کے سامنے انگریز تھال میں سجا کر ان کے سامنے تحفے کی شکل میں لائے تھے۔ میجر ہڈسن نے ان کے چاروں لڑکوں مرزا غلام، مرزا خضر سلطان، مرزا ابوبکر اور مرزا عبد اللہ کوبھی قید کر لیا، میجر ہڈسن نے سبھی چاروں صاحبزادوں کا سر کاٹا اور ان کا گرم خون چلو سے پی کر ہندوستان کو آزاد کرنے کی چاہ رکھنے والوں سے انگریزوں کے تئیں جنگ اوربغاوت کوجاری رکھنے کا خطرناک وحشیانہ عہد کو جاری رکھا۔ بہادر شاہ ظفر نے اپنے بیٹوں کے کٹے ہوئے سروں کو اپنے ہاتھوں میں لے کردرد بھرے الفاظ میں ان کے لیے دعا کرتے ہوئے کہا تیمور کی اولاد ایسے ہی سرخرو ہو کر باپ کے سامنے اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد شہزادوں کے دھڑ کوتوالی کے سامنے اور کٹے ہوئے سروں کو خونی دروازے پر لٹکا دیا گیا۔ بہادر شاہ ظفر نے انگریزوں کی داستان کے لیے 1857ء کی پہلی ہندوستانی جنگ کی اگوائی کی، انگریز سیناپتی نے انہیں دھوکے سے قتل کرنے کے لیے بلوایا اور گرفتار کرکے رنگون بھیج دیا۔ بہادرشاہ ظفر مغل خاندان کے آخری بادشاہ تھے۔1837ء میں تخت پوشی کے وقت انہیں ابوالمظفر کے بدلے ابوظفر ،محمد سراج الدین، بہادر شاہ غازی نام ملا تھا۔ ان کی حکومت ڈھنگ عالم سے پالم تک ہی مانا جاتا تھا۔ وہ نام ماگ کے دہلی کے چیرمین تھے اور اصل حکومت انگریزوں کے پاس تھی۔ انہوں نے اردو، عربی، فارسی، زبان کے ساتھ گھڑسواری ،تلوار بازی، تیراندازی اور بندوق چلانے کی کافی مہارت حاصل کرلی تھی۔ وہ ایک اچھے صوفی درشن کے جانکار فارسی میان، سولے خن میں ادیب وشاعر تھے۔ وہ 1857ء تک حکومت کے کام کاج سنبھالتے رہے۔ انگریزوں نے ان پر حکومتی مجرم اور فوجیوں قتل کے الزام میں عدالت کے ذریعہ مقدمہ چلایا، مقدمے میں پیش کیے گئے ثبو ت بہت زیادہ ظلم آمیز تھے اور قانون عام ہونے کے باوجود انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو مجرم اور خاطی قرار دیا اور ملک سے نکالنے کا جرمانہ دیا۔ بے چارگی، ملک دوست، دین دار، بزرگ 82 سال ہندوستان دھرتی ماں کے لاڈلے بہادر شاہ ظفر پر حیرت انگیز مقدمہ سونپا۔ اکتوبر 1858ء میں انہیں زندگی بھر کے لیے رنگون بھیج دیا گیا اس طرح دیش ایک محب وطن نے ملک سے دور رہ کر بھی ملک کی آزادی کے لیے خود کو قربان کرتے ہوئے اپنے قلم سے آزادی کی لڑائی کوجاری رکھا۔ اس دو ران انہوں نے جو غزلیں لکھیں وہ اپنی مہارت اورترقی کے لیے ہندو ستان کی آزادی کے کے متوالوں کے دلوں میں کشادہ جگہ رکھتی ہیں۔ رنگون میں6 نومبر، 1862ء کو اس آخری مغل خاندان 1857ء کی پہلی جنگ آزادی کے رہبر نے اپنی جان نچھاور کردی

غزلِ ظفر 

لگتا نہیں ہے جی مرا اُجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائدار میں

بُلبُل کو باغباں سے نہ صَیَّاد سے گلہ
قسمت میں قید لکّہی تھی فصلِ بہار میں

کہہ دو اِن حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں

ایک شاخ گل پہ بیٹھ کے بلبل ہے شادمان
کانٹے بچھا دیے ہیں دل لالہ زار میں

عُمْرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

دِن زندگی کے ختم ہوئے شام ہو گئی
پھیلا کے پاؤں سوئیں گے کُنجِ مزار میں

کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں


مزیدمعلومات کے لئے 👈

 
Design by Wordpress Theme | Bloggerized by Free Blogger Templates