Zor-e-Qalam






































































































































































































































































































🖋️🖋️🖋️

*------قابل-------*

ازقلم : عارف محمد خان جلگاؤں

آج شہر کے بڑے اور نامورتعلیمی ادارے میں ٹیچرس کے انتخاب کے لیے انٹرویو تھا۔اس کی ماں نے مستقبل کے لیے کئی خواب سجائے تھے۔وہ بہت پر امید تھی کہ اس کا اکلوتا لاڈلا منتخب ہوجائے گا اور کیوں نا ہوتی اسے اس کے بیٹے کی ذہانت اور قابلیت پر پورا یقین تھا۔اس بیوہ نے تنگدستی اور مفلسی کے باوجود اسے اپنا پیٹ کاٹ کر پالا پوسا اور اعلی تعلیم یافتہ بنایا تھا۔انٹرویو ختم ہونے کے بعد جب گھر لوٹا تو اس کی ماں نے پوچھا۔
بیٹا کیا تمہارا انتخاب ہوگیا؟
نہیں ماں۔اس نے مرجھائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔
کیوں نہیں؟کیا تم سے بھی زیادہ ہونہار اور قابل امیدوار انٹرویو کے لیے آئے تھے؟
اس نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔
نہیں ماں! ایک اسکول انتظامیہ کے چیرمن کا قریبی رشتہ دار تھا اور دوسرا اپنے ساتھ ایک وزنی بیگ لایا تھا۔



🖊️🖊️🖊️


افسانچہ

چبھتا سوال

ازقلم: عارف محمد خان جلگاؤں

*شہر کے ایک عالیشان اور بہت بڑے ہال میں قومی سطح پر ایک سمینار کا انعقاد کیا گیا تھا۔سمینار کا عنوان "اردو میڈیم سے تعلیم" تھا۔اس سمینار میں نہ صرف شہر اور ضلع بلکہ ریاست اور ملک کے مختلف علاقوں سے مشہور و معروف علمی،ادبی،تعلیمی،ادبی اور سماجی معزز شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا۔تمام مقررین اپنے اپنے انداز میں اردو میڈیم سے تعلیم کی اہمیت اور افادیت پر موثر تقاریر کررہے تھے۔اس سمینار میں مسند صدارت پر شہر کی ایک نامور شخصیت جلوہ افروز تھی۔جب تمام مقررین کی تقاریر کا اختتام ہوا تو صدارتی خطبہ کا آغاز ہوا۔صدر موصوف نے اپنے جذباتی انداز میں بولنا شروع کیا۔اردو میڈیم سے تعلیم اس موضوع پر بولتے ہوئے جناب نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور زمین و آسمان کے قلابے ملا دئیے۔صدر صاحب کی تقریر سن کر ہر کوئی اردو اور اردو میڈیم پر رشک کررہا تھا۔اور یہ سوچ رہا تھا کہ یہ سچے محب اردو ہے جنھیں کس قدر اردو اداروں سے لگاؤ ہے۔ہر کوئی صدارتی خطبہ کی تعریف کے پل باندھ رہا تھا۔سمینار کے اختتام پر منتظمین نے ایک شاندار ظہرانے کا اہتمام کیا تھا۔کھانے کی میز پر ایک شخص صدر جلسہ سے مخاطب ہوا
"صاحب کیا بات ہے کیا تقریر کی آپ نے اردو اور اردو میڈیم کا حق ادا کردیا۔" وہ شخص پھر بولا کیا آپ کے بچے بھی اردو میڈیم میں پڑھتے ہیں؟؟؟سوال سن کر صاحب ہکا بکا رہ گئے۔ان کے منہ میں نوالہ اٹک گیا۔ان کی حالت ایسی تھی جیسے منہ میں زبان ہی نہ ہو۔وہ اپنی تمام تر قوت یکجا کرکے صرف اتنا بول پائے۔نہیں میرے بچے تو ۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!*


🖋️🖋️🖋️


اردو زبان تہذیب و معاشرت اور احساسات و جذبات کی آئینہ دار ہے“(شمیم طارق)

الفیض فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام بزم اردو ادب کی جانب سے تفویض اعزازات و رسم رونمائی
”اردو کی ترقی کے لیے کوششیں کرنے والوں اور اردو کے محافظوں کا اکرام کیا جانا ضروری ہے“(سرفراز آرزو)
”اردو زبان تہذیب و معاشرت اور احساسات و جذبات کی آئینہ دار ہے“(شمیم طارق)
جلگاؤں (نامہ نگار): الفیض فاؤنڈیشن جلگاوں کے زیر اہتمام بزم اردو ادب کی جانب سے ضلع جلگاؤں کے کہنہ مشق شعراء و افسانہ نگاراور صحافیوں کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں تفویض اعزازات کی تقریب کے انعقاد کا سلسلہ گزشتہ ۳/برسوں سے جاری ہے۔کچھ کتابوں کا اجراء بھی اس تقریب کا حصہ ہوتا ہے۔اس سال بھی بڑے شاندار طریقے سے اس پروگرام کا انعقاد اقرا ایچ جے تھیم کالج کے قدیر خان موتی والا سیمینار ہال مہرون میں کیا گیا۔مذکورہ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کے ذریعے کیا گیا۔سال 2024 کے لیے جناب احسانؔ رسولپوری (بھساول)کی ادبی خدمات کے لیے عاجز ؔبیاولی ایوارڈ برائے شاعری،جناب عبدالقیوم رازؔ (مارول) کی خدمت میں ساحرؔ ادیبی ایوارڈ برائے شاعری،معروف افسانہ نگار معین الدین عثمانی (جلگاؤں) کی خدمت میں احمد کلیم فیض پوری ایوارڈ برائے افسانہ نگاری اور سینئر صحافی عقیل خان بیاولی کی خدمت میں سید قاسم جلگانوی ایوارڈ برائے صحافت پیش کیے گئے۔تمام اعزاز یافتگان کی خدمت میں شال،گلدستہ،ٹرافی،سپاس نامہ اور ۱۱/ہزار روپئے نقد بصورت کیسہ زر پیش کیے گئے۔
 رسم اجراء میں ڈاکٹر ساجد قادری (شیر پور)کی تحقیقی تخلیق ’رسالہ نقوش کا ادبی سفر‘معروف شاعر اسلم تنویر (نصیر آباد) کا شعری مجموعہ ’تیرے بغیر‘ایڈوکیٹ نند کشور بھتڑا (ناسک) کی خود نوشت ’یادش بخیر‘سلیم خان فیض پوری کا کہانیوں کا مجموعہ (برائے اطفال) ’ہم جب ایک ہوجائیں‘ پروفیسر شاہ ایاز احمد (مالیگاؤں) کا افسانوی مجموعہ بعنوان ’پتھر میں جونک‘اور مرحوم خوشتر بھساولی کا شعری مجموعہ ’سوزِ دروں‘ان چھ کتابوں کا اجراء کیا گیا۔
 پروگرام کی صدارت اقرا ایجوکیشن سوسائٹی کے صدر اور الفیض فاؤنڈیشن جلگاؤں کے بانی و سرپرست ڈاکٹر عبدالکریم سالارنے کی۔بطور مہمانان خصوصی سینئر صحافی،ادیب،شاعر،نقاد ومحقق شمیم طارق (ممبئی)،خلافت ہاؤس ممبئی کے صدر سرفراز آرزو،بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی کے سابق ڈائریکٹر اور ڈاکٹر رفیق زکریا ایجوکیشنل کیمپس کے چیئر من ارتکاز افضل (اورنگ آباد)،آل انڈیا ریڈیو اورنگ آباد کے پروگرام براڈ کاسٹر خان مقیم احمد خان،اقرا ایجوکیشن سوسائٹی کے جنرل سیکریٹی اعجاز احمد ملک،جلگاؤں آکاش وانی کے سابق پروگرام براڈ کاسٹر جاوید انصاری (مالیگاؤں)،سینئر صحافی عبدالحلیم صدیقی (مالیگاؤں)،وائرل نیوز کے ایڈیٹر مفتی ہارون ندوی،نارتھ مہاراشٹر یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اور ڈپارٹمنٹ آف آئل ٹیکنالوجی کے ایچ او ڈی ڈاکٹر غیاث عثمانی،الحراء ایجوکیشن سوسائٹی بھساول کے صدر حاجی انصار خان،الفیض فاؤنڈیشن کے صدر عبد العزیز سالار،الفیض فاؤنڈیشن کے جنرل سیکریٹی مشتاق سالار،’مرحوم خوشتر بھساولی کے فرزند ڈاکٹر سید رفیق احمد موجود تھے۔نظامت کے فرائض افتخار غلام رسول،صابر مصطفی آبادی اور مشتاق کریمی نے ادا کیے۔رسم شکریہ الفیض اردو ہائی اسکول کے صدر مدرس آصف پٹھان نے ادا کی۔


🖋️🖋️🖋️


ماہِ ذوالحجہ کی فضیلت

 از قلم؛ سلیم شہزاد صاحب، مالیگاؤں

ذوالحجۃ الحرام اسلامی سال کا وہ بارہواں مہینا ہے جو حُرمت والے مہینوں میں شامل ہے۔ حُرمت یعنی احترام والے مہینے چار ہیں:

(1) ذُوالْقَعْدَۃِ الْحَرَام (2) ذُوالْحِجَّۃِ الْحَرَام (3) مُحَرَّمُ الْحَرَام اور (4) رَجَبُ الْمُرَجَّب۔
ان میں سے افضل *ذُوالْحِجَّۃِ الْحَرَام* ہے بالخصوص اس کے پہلے دس دن اور راتوں کے فضائل تو بہت زیادہ ہیں۔ قرآنِ کریم نے بھی اس مہینے کی پہلی دس راتوں کی قسم ارشاد فرمائی ہے، چنانچہ پارہ30 سورۃ الفجر کی آیت نمبر1 اور 2 میں ارشادِ باری ہے:

*وَ الْفَجْرِۙ(۱) وَ لَیَالٍ عَشْرٍۙ(۲)* (پارہ،۳۰،الفجر:۱،۲)
*تَرْجَمَۂ کنزالایمان:* اس صبح کی قسم اور دس راتوں کی۔

*حضرت سیدنا عبدُاللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا* سے مروی ہےکہ ان دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں کیونکہ یہ زمانہ حج کے اعمال میں مشغول ہونے کا زمانہ ہے۔ (خازن،الفجر، تحت الآیۃ:۱،۴/۴۰۱)

*اَلْحَمْدُلِلّٰہ!* احادیثِ مبارکہ میں بھی مختلف مقامات پر ان دس دنوں اور راتوں کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ آئیے!ترغیب کے لئے 5 فرامینِ مصطفے سنتے ہیں، چنانچہ

*ذو الحجۃ کےپہلے دس دنوں کے فضائل پر مشتمل 5 روایات*

*(1) ارشاد فرمایا:* اللہ کریم کے نزدیک کوئی بھی دن عشرۂ ذوالحجہ سے زیادہ نہ عظیم ہے اور نہ ان دنوں سے بڑھ کر کسی دن کا نیک عمل اسے محبوب ہے لہٰذا ان دنوں میں تہلیل (یعنی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ)، تکبیر (یعنی اَللہُ اَکْبَر) اور تحمید (یعنی اَلْحَمْدُلِلہِ) کی کثرت کرو۔ (مسنداحمد، مسند عبدالله بن عمر، ۲/۳۶۵، حدیث: ۵۴۴۷)

*(2)ارشاد فرمایا:* اللہ پاک کے نزدیک عشرۂ ذوالحجہ کے دنوں سے افضل کوئی دن نہیں۔ (ابن حبان، کتاب الحج، باب الوقوف بعرفة...الخ، ذکررجاء العتق من النار... الخ،۶/۶۲، حدیث:۳۸۴۲)

*(3)ارشاد فرمایا:* جن دنوں میں اللّٰہ پاک کی عبادت کی جاتی ہے ان میں  سے کوئی دن ذوالحجہ کے دس دنوں  سے زیادہ پسندیدہ نہیں، ان میں سے (دس ذوالحجہ کے علاوہ) ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں اور (دس ذوالحجہ سمیت) ہر رات کا قیام لیلۃُالقدر کے قیام کے برابر ہے۔(ترمذی، کتاب الصوم، باب ما جاء فی العمل فی ایام العشر، ۲/۱۹۲، حدیث:۷۵۸)

*(4)ارشاد فرمایا:* اللہ کریم کے نزدیک حج کے ان دس دنوں سے افضل اور پسندیدہ کوئی دن نہیں لہذا ان دنوں میں سُبْحَانَ ﷲِ، اَلْحَمْدُلِلّٰہ  ،لَااِلٰہَ اِلَّا ﷲُ اور ﷲُ اَکْبَرُ کی کثرت کیا کرو۔
ایک روایت میں ہے کہ ان دنوں میں سُبْحَانَ ﷲِ، اَلْحَمْدُلِلّٰہ، لَااِلٰہَ اِلَّا ﷲُ اور ذکراللہ کی کثرت کیا کرو اور ان میں سے ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر ہے اور ان دنوں میں عمل کو سات سو گنا بڑھا دیا جاتاہے۔(شعب الایمان، باب فی الصیام، فصل تخصیص ایام العشر…الخ، ۳/۳۵۶ ، رقم: ۳۷۵۸)

*(5) ارشاد فرمایا:* حج کے دس دنوں میں کیا گیا عمل اللہ پاک کو بقیہ دنوں میں کئے جانے والے عمل سے زیادہ محبوب ہے۔ صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کیا، یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ! کیا راہِ خدا میں لڑنا بھی؟ ارشاد فرمایا: ہاں! راہِ خدا میں لڑنا بھی، سوائے اس شخص کے جو اپنی جان ومال کے ساتھ نکلے اور ان دونوں میں سے کچھ بھی واپس نہ لائے۔ (بخاری، کتاب العید ین، باب فضل العمل …الخ،۱/۳۳۳) 
احادیثِ کریمہ سے یہ معلوم ہوا کہ ذی الحجہ کے پہلے دس دن بہت عظیم  دن ہیں، ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں کا عمل اللہ کو بہت پسند ہے، ذی الحجہ کے پہلے دس دن بہت زیادہ فضیلت والے ہیں، ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں سے ممنوعہ دنوں  کے علاوہ ہر دن کا روزہ) ایک سال کے روزوں اور ہر رات کا قیام لیلۃُالقدر کے قیام کے برابر ہے، ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں کئے جانے والے اعمال بہت زیادہ پاکیزہ اور ثواب والے ہیں، ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں عمل کا ثواب سات سو گنا بڑھا دیا جاتا ہے، ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں کیا جانے والا عمل بقیہ دنوں میں کئے جانے والے عمل کے مقابلے میں راہِ خدا میں لڑنے سے زیادہ اللہ پاک کو پسند ہیں، الغرض ذی الحجہ کے پہلے دس دن کئی فضائل و برکات اور خصوصیات (Specialities) سے مالا مال ہیں۔
ہر سال گیارہ ماہ بعد ذی الحجہ کے مقدس مہینے میں یہ مبارک دن تشریف لاتے ہیں اور اپنا فیضان تقسیم کرکے گیارہ ماہ کے لئے تشریف لے جاتے ہیں مگر آہ! کثیر مرد و خواتین ان دس دنوں کو بھی دیگر دنوں کی طرح غفلتوں میں گزار دیتے ہیں، مثلاً گھر میں مختلف چینل، یوٹیوب، انسٹاگرام رِیل دیکھ دیکھ کر یا مختلف ڈائجسٹ یا ناول پڑھ کر یا اس طرح کی کسی مصروفیات کی وجہ سے اپنا قیمتی وقت برباد کردیتے ہیں، پیارے اسلامی بھائیو اور بہنوں! اپنے قیمتی وقت کی قدر کیجئے اور اپنے وقت کو نیک کاموں میں صرف کیجئے، اِنْ شَآءَاللہ اس کی برکتیں دنیا وآخرت میں آپ کو ملیں گی۔
*اللہ کریم* ہمارےحالِ زار پر رحم فرمائے، ہمیں خوابِ غفلت سے بیدار ہوکر ماہِ ذو الحجہ کے ان دس دنوں کی قدر کرنے اور انہیں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال میں گزارنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

🖋️🖋️🖋️


لائے کوئی اس جہاں میں کلام ،عبدالکلام۔۔

از قلم عظیم احمد خان خاکی
پربھنی 8421659543

ایک کلام ہوئے اکتوبر دوسرے نومبر میں ۔۔۔
ایک ہوئے پیدا رامیشورم میں جہاں علم کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔۔۔
ایک ہوئے پیدا مکّہ مکرمہ میں جہاں سے علم ہی کا ظہور ہوا ۔۔۔

ان دونوں عظیم شخصیات نے علم اور علم (alam) دونوں کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا ۔۔
ایک کلام نے قرآن ،صحافت،بیان ،تعلیم ،تربیت،دور اندیشی ،اور قیادت کی مثال بن کر سامنے دکھایا۔۔
دوسرے کلام نے غریبی سے اٹھ کر علم اور سائنس کے میدان میں ایسا کارنامہ انجام دیا جس نے بھارت جیسے ترقی پذیر ملک کو دنیا کے نقشے پر ایٹمی سپر پاور ملک کی پہچان دی اور بابائے میزائل کہلا یا۔۔۔۔
ضرور اپنی تاریخ پر فخر کیجئے اور اپنی نسلوں کو انٹرنیٹ کے وسائل کے ذریعے خوب واقف کروائیے ۔۔۔
ذرا سوچیے اس بات کو کے جب جدید وسائل نہ تھے نا علم کے ذرائع تھے پھر ایسے کلام نے ملک اور ملّت کو ترقی کی راہ اپنے عمل سے دکھائی۔۔۔!
،تو اب کونسے ذرائع کی کمی ہے؟؟
کیا ہمارے ماضی کی تاریخ کو خوب celebrate کرنے سے نئی تاریخ بنےگی ؟؟ کیا ہماری نسلوں کے پاس کوئی تاریخ بچیگی جس پر وہ ہماری طرح فخر کر سکے؟؟
اس لیے ہم کہتے ہیں کے اب تاریخ کے فخریہ celebration کے ساتھ ہمیں نئی تاریخ رقم کرنے والے مزید ہزاروں کلام کی ضرورت ہے۔۔۔
اور یہ ہزاروں کلام کہیں سے ڈھونڈ کر نہیں لائے جاسکتے ہمیں اپنے گھر سے کلام بنانا ہوگا ۔
کچھ عملی اقدامات جن سے ہم اپنی نسلوں میں کلام جیسے عظیم انسان کو تیار کر سکتے ہیں۔
سب سے پہلے اپنے نونہالوں کو قرآن سے والہانہ رقبت ،انسیت ،محبت اور خوب سمجھ کر عمل کی راہ ہموار کرنے میں مدد کیجئے ۔
اپنے نونہالوں کی تعلیم کے ساتھ اسلامی تربیت کا نظم کریں اسلامی اجتماعیت سے وابستہ کریں ۔صرف تعلیم کے ذریعے دنیا کی مادہ پرستی کی آگ میں نہ جھونکے ۔
اپنے نونہالوں کو حالات حاضرہ اور دنیا کے تغیرات سے آشنائی کے مواقع فراہم کریں 
تعطیلات میں اپنے نونہالوں کو نت نئی مہارتوں سے آراستہ کرائیں ۔
جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے سرگرمیوں کا حصہ بنائے۔
تعطیلات میں شہر کے معروف اساتذہ ،ماہر قانون ،صحافی،اور کامیاب شخصیات سے ملاقات کرائیں۔
نئے سال کے ابتدائی دنوں میں ہی اپنے اور اپنے نونہالوں کے لیے بہترین سالانہ منصوبہ بندی کریں تاکہ بامقصد زندگی گزارنے کی عادت ہو اور زندگی میں نظم و ضبط پیدا ہو۔
اپنے نونہالوں کو تاریخی اور سائنسی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے مواقع فراہم کریں ۔
دور حاضر میں ملک و ملت کو بہترین قانون داں،بہترین صحافی،بہترین قائد،بہترین سیاستدان،بہترین علماء ،بہترین مصنف،بہترین ادیب،بہترین تجزیہ نگار ،بہترین کلکٹر،بہترین اُستاد ،بہترین کھلاڑی،بہترین تاجر وغیرہ کی اشد ضرورت ہے ۔
ہمیں ایسے عظیم شخصیات دانستہ طور پر اپنے خاندان اپنے طلباء اپنے وابستگان میں سے ہی تیار کرنا ہوگا ۔
یہ کوئی نا ممکن خواب نہیں ہے یہ خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے جب ہم میں ہر کوئی اپنے ہی خاندان سے اپنے ہی اطراف میں اور اپنے ہی قوم کے طلباء کو عظیم مقاصد کے لیے عملی طور پر کوشش کرینگے۔۔
انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب اس ملک کی تقدیر ملّت کے افراد ہی بدلینگے اور عظیم پاکیزہ انقلاب ہماری نسلیں دیکھیں گی کہ ہمارے روشن ستارے زمین و آسمان میں روشنی بکھیریں گے ۔


🖊️🖊️🖊️

دسویں، بارہویں کے نتائج: طلباء کی صلاحیت اور والدین کے خواب.....!

از قلم: عظیم احمد خان خاکی، پربھنی
رابطہ: 8421659543


ہر سال جب دسویں اور بارہویں جماعت کے نتائج آتے ہیں تو کئی چہروں پر خوشیاں ہوتی ہیں اور کئی چہروں پر مایوسی کے سائے۔ کچھ طلباء اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں، جب کہ کچھ اپنی امیدوں کو از سر نو ترتیب دینے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں اکثر اوسط درجے کی صلاحیت رکھنے والے طلباء اور ان کے والدین صرف دو ہی راستے دیکھتے ہیں — میڈیکل (NEET) یا انجینئرنگ (JEE) — اور بغیر اپنی حقیقی صلاحیت کو پہچانے، ایک مخصوص بھیڑ کا حصہ بن جاتے ہیں۔

ہمارے مشاہدے میں آیا ہے کہ کئی طلباء جو اوسط کارکردگی رکھتے ہیں، محض اس لیے مہنگے کوچنگ انسٹی ٹیوٹس میں داخلہ لیتے ہیں کیونکہ ان کے دوست یا رشتہ دار وہاں جا رہے ہیں، یا والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ ڈاکٹر یا انجینئر بنے۔ اس دوڑ میں وہ لاکھوں روپے خرچ کر بیٹھتے ہیں، اور دو سال بعد جب بارہویں جماعت کا نتیجہ آتا ہے تو اکثر وہ نہ میڈیکل میں جگہ بنا پاتے ہیں، نہ انجینئرنگ میں۔ نتیجہ: ذہنی دباؤ، احساسِ کمتری، اور وقت و پیسے کا ضیاع۔

اس لیے سب سے پہلی اور اہم ضرورت ہے کرئیر کاونسلنگ کی۔ ہر طالب علم کے اندر کوئی نہ کوئی خاص صلاحیت چھپی ہوتی ہے — کسی کو ریاضی میں مہارت ہوتی ہے، کسی کو زبان میں، کسی کو سوشل سائنس میں دلچسپی ہوتی ہے، تو کسی کو کمپیوٹر، آرٹ، ڈیزائن، یا معاشرتی خدمت کا شوق ہوتا ہے۔ ہمیں بچوں کو یہ موقع دینا ہوگا کہ وہ اپنی دلچسپی، رجحان اور قابلیت کے مطابق میدانِ عمل چنیں۔

کرئیر کاونسلنگ کا مطلب یہ نہیں کہ صرف ایک میٹنگ میں فیصلہ کر لیا جائے۔ اس میں وقت، مشاہدہ، والدین، اساتذہ اور طلباء کے درمیان کھلا مکالمہ ضروری ہے۔ کچھ طلباء کو اسکل بیسڈ تعلیم، ڈپلوما، یا ووکیشنل کورسیز میں شاندار کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر:

- ITI (الیکٹریشن، پلمبر، موٹر مکینک وغیرہ)
- پولی ٹیکنک ڈپلوما (کمپیوٹر، الیکٹریکل، مکینیکل)
- BCA، BBA، BSc (IT)، BCom، BSc (فارماسیوٹیکل، بایو ٹیکنالوجی)
- D.Ed / B.Ed (تعلیم کے میدان میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے)
- فیشن ڈیزائننگ، گرافک ڈیزائننگ، اینیمیشن کورسیز
- نرسنگ، فیزیو تھراپی، پیرامیڈیکل کورسیز
- Hotel Management، Event Management
- Mass Communication، Journalism
- سوشل ورک (BSW, MSW)
- Law (CLAT یا 5 سالہ LLB پروگرام)

والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں پر اپنے خواب تھوپنے کے بجائے ان کے اندر موجود صلاحیت کو پہچانیں۔ کئی مرتبہ والدین کا خواب ہوتا ہے کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر بنے یا بیٹی انجینئر، لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بچے کی فطری دلچسپی اور رجحان کس طرف ہے۔ ہر بچہ ایک جیسا نہیں ہوتا۔ کوئی بہت اچھا اسپیکر ہو سکتا ہے، تو کوئی تکنیکی میدان میں ماہر، کوئی تخلیقی ذہن کا مالک ہوتا ہے تو کوئی تجزیاتی صلاحیت رکھتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں سے گفتگو کریں، ان کے رجحان کو سمجھیں، اور اگر ضرورت ہو تو کسی ماہر کرئیر کونسلر کی مدد لیں۔ یہ فیصلہ کہ بچہ کس شعبے میں جائے، صرف نمبرات پر نہیں بلکہ مکمل شخصیت، دلچسپی اور صلاحیت کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔

ایک اور پہلو جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ ہے مقابلہ جاتی امتحانات جیسے UPSC, MPSC, SSC, Railway, Banking وغیرہ۔ ان امتحانات میں لاکھوں طلباء شامل ہوتے ہیں، لیکن کامیاب وہی ہوتے ہیں جو باقاعدہ منصوبہ بندی، وقت کی پابندی، اور سمارٹ اسٹڈی کے ساتھ تیاری کرتے ہیں۔

**MPSC / UPSC
 کی تیاری کیسے کریں؟**

1. سب سے پہلے نصاب کو اچھی طرح سمجھیں۔
2
. روزانہ خبروں کا مطالعہ کریں، خاص طور پر دی ہندو یا انڈین ایکسپریس جیسے معیاری اخبارات
3. 
 مطالعہ میں رکھیں، خاص طور پر تاریخ، جغرافیہ، پولیٹکل سائنس، اکنامکس۔ایں سی آر ٹی ٹی ای کی جماعت پنجم تا بارہویں کی کتابیں
4
. کرنٹ افیئرز کی نوٹس بنائیں اور ہر ہفتہ دُہرائیں۔
5. Mock Tests اور Previous Year Papers
 کا مسلسل مطالعہ کریں۔
6.
کریں۔ اگر ممکن ہو تو اچھی رہنمائی کے لیے آن لائن یا آف لائن کوچنگ کا انتخاب
7. مستقل مزاجی، صبر، اور خود پر اعتماد سب سے بڑا ہتھیار ہے۔

طلباء کو یہ سمجھنا چاہیے کہ کامیابی کا ایک ہی راستہ نہیں ہوتا۔ NEET یا JEE ناکام ہو جانا زندگی کا خاتمہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک موقع ہے اپنے آپ کو نئے زاویے سے دیکھنے کا۔ دنیا میں ہزاروں کامیاب لوگ ایسے ہیں جو ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بنے، مگر اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر نمایاں مقام حاصل کیا۔

آخر میں یہی گزارش ہے کہ طلباء اپنی شخصیت کو سمجھیں، والدین جذباتی فیصلوں کے بجائے حقیقت پسندانہ رہنمائی کریں، اور معاشرہ ایک ایسے نظام کی طرف بڑھے جہاں ہر بچہ اپنی مرضی، دلچسپی، اور صلاحیت کے مطابق آگے بڑھے — تب ہی ہم ایک بہتر، بامقصد اور خوشحال نسل تیار کر سکتے ہیں۔

اللہ ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور نبھانے کی توفیق دے۔ آمین۔ 

🖊️🖊️🖊️



پرانے سمارٹ فون کے 11 بہترین استعمال

تحریر کردہ؛ فیروز خان
معلم ضلع پریشد، تھانہ
 

آپ نے ایک نیا اینڈرائیڈ سمارٹ فون لے لی ہے،  اب اپنے پرانے فون کا کیا کریں گے؟.... یقیناً اسے فروخت کردیں گے یا دراز میں رکھ کر بھول جائیں گے، مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس کے حوالے سے آپ کے پاس چند دلچسپ آپشنز موجود ہیں۔


اگر سمارٹ فون وائی فائی سے کنکٹ ہوسکتا ہے کہ تو اس سے آپ کافی کچھ کرسکتے ہیں۔


آخر سمارٹ فون چھوٹے طاقتور کمپیوٹر ہی تو ہوتے ہیں جن میں سٹوریج اور کیمرا بھی موجود ہوتا ہے۔

سیکیورٹی کیمرا

اگر آپ پرانے فون کو استعمال نہیں کررہے تو اسے ہوم سیکیورٹی کیمرا میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کسی سیکیورٹی کیمرا ایپ جیسے الفریڈ کو نئے اور پرانے دونوں فونز پر ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں۔
اس کے بعد فون کو کسی بھی جگہ فکس کرسکتے ہیں بس یہ خیال رہے کہ ڈیوائس چارجنگ نہ ہونے کے باعث بند نہ ہو۔
پھر نئے فون سے لاگ ان ہوکر اپنے پرانے سمارٹ فون کی ویڈیو فیڈ کو دیکھ کر گھر کی صورتحال پر نظر رکھ سکتے ہیں۔

بچوں کو دے سکتے ہیں

اگر آپ اپنے بچوں کو نیا فون خرید کر نہیں دینا چاہتے تو اپنے پرانی ڈیوائس کو ان کے لیے رکھ دیں۔
اپنی مرضی کی سیٹنگز کرکے بچوں کو استعمال کے لیے دے سکتے ہیں تاکہ انٹرنیٹ سرچ اور گیمز سمیت اپنی پسند کے ٹاسک کرسکیں۔ بس کیس اور اسکرین پروٹیکٹر فراہم کرنا مت بھولیں۔

گیمنگ سسٹم

اینڈرائیڈ اور آئی فون میں متعدد موبائل گیمز موجود ہیں اور انہیں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے صرف وائی فائی کنکشن کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر آپ کے پاس ایک اضافی سمارٹ فون موجود ہے تو اسے گیمنگ سسٹم کے لیے مختص کرسکتے ہیں، جس سے نئے فون میں سٹوریج سپیس کی فکر ختم ہوجائے گی۔

ویڈیو چیٹ ڈیوائس

اگر آپ زوم یا کسی بھی ویڈیو چیٹ پلیٹ فارم کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں تو پرانے سمارٹ فون کو ویڈیو چیٹ کے انٹرفیس کی شکل دے سکتے ہیں۔ اس طرح نیا فون کالز اور دیگر الرٹس کے لیے اوپن رہے گا۔

وائرلیس ویب کیم

اگر آپ کے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ ویب کیم سے محروم ہے تو پرانے سمارٹ فون کو ویب کیم کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔ مختلف سافٹ ویئر جیسے DroidCam یا EpocCam سے کسی بھی سمارٹ فون کو کمپیوٹر کے لیے ویب کیم پر تبدیل کرسکتے ہیں۔

الارم کلاک
پرانے سمارٹ فون کے بڑے ڈسپلے کو آپ الارم کلاک کے طور پر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ کسی الارم کلاک ایپ کو ڈاؤن لوڈ کریں اور فون کو سٹینڈ پر بستر کے سرہانے رکھ دیں اور بس۔

ٹی وی ریموٹ

بیشتر میڈیا سٹریمنگ ڈیوائسز کے ساتھ ان کے اپنے ریموٹ کنٹرولر ہوتے ہیں، مگر وہ خراب بھی ہوسکتے ہیں یا گم بھی ہوسکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں نیا ریموٹ خریدنے کی بجائے فون کو استعمال کریں، ہر ڈیوائس یا سروس کی اپنی موبائل ایپ ہوتی ہے جس کو ڈیوائس پر انسٹال کریں، اپنے اکاؤںٹ کو لنک کریں اور ریموٹ کنٹرول کے طور پر استعمال کریں۔

ای بک ریڈر

اگر آپ کتابیں پسند کرتے ہیں مگر ای بک ریڈر خریدنا نہیں چاہتے تو اپنے فون کو استعمال کریں۔ ایمازون کینڈل ایپ یا اپنی پسند کی ای بک ریڈر ایپ کو ڈاؤن لوڈ کریں۔

میڈیا پلیئر

ایک پرانا فون آپ کی پسندیدہ سٹریمنگ سروسز سے موسیقی سننے کے لیے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ اسے چارجنگ اسٹینڈ پر لگائیں اور بلیو ٹوتھ اسپیکر یا وائرلیس ایئربڈز سے کنکٹ کریں اور میوزک سے لطف اندوز ہوں۔

اسی طرح پرانے فون کو ویڈیو سٹریمر کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، ایک یا 2 فلموں کو ڈاؤن لوڈ کرکے گھر سے باہر ہونے پر دیکھ کر وقت گزارا جاسکتا ہے۔

تصاویر سٹور کریں

تصاویر کے لیے کافی سٹوریج درکار ہوتی ہے تو آپ ان کو پرانے فون میں محفوظ کرسکتے ہیں۔ اپنے نئے فون کو تصاویر لینے اور ان کو پرانے فون میں منتقل کرکے سٹوریج کو بچا سکتے ہیں۔
پرانے فون کو کیمرے کے طور پر بھی استعمال کرسکتے ہیں اور ان جگہوں پر بھی لے جاسکتے ہیں جہاں نئے فون کو لے جانا پسند نہیں کرتے۔
مثال کے طور پر جھیل یا ساحل پر جہاں تصاویر لیتے ہوئے یہ فکر نہیں ہوگی کہ فون پانی میں نہ گرجائے۔

وائرلیس ماؤس

اگر وائرلیس ماؤس اچانک کام کرنا چھوڑ دے تو پرانا فون اس حوالے سے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک ایپ جیسے ریموٹ ماؤس کو ڈاؤن کریں اور فون کو ماؤس میں تبدیل کردیں۔
ایپ انسٹال کرنے کے بعد فون اور لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر کو ایک ہی وائی فائی نیٹ ورک پر کنکٹ کریں اور بس۔


🖋️🖋️🖋️


بچوں میں قیادت کے اصول

تحریر: نکہت انجم ناظم الدین

قیادت ایک ایسی خصوصیت ہے جو انسان کی شخصیت کو نمایاں کرتی ہے۔اس کا اثر اس کی زندگی پر پڑتا ہے اور اس کے ارد گرد موجود لوگوں پر بھی پڑتا ہے۔ قیادت کے اصولوں کا اطلاق صرف بڑوں تک محدود نہیں ہے بلکہ بچوں میں بھی قیادت کی خصوصیات کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ بچوں میں قیادت کے اصولوں کو بہتر طریقے سے سمجھنے اور اپنانے سے وہ نہ صرف اچھے رہنما بن سکتے ہیں بلکہ اپنی زندگی میں کامیاب بھی ہو سکتے ہیں۔ قیادت کی بنیادی خصوصیات میں خود اعتمادی، دوسروں کا احترام، ٹیم ورک، فیصلہ سازی اور مخلصی شامل ہیں۔ ان خصوصیات کو بچوں میں پیدا کرنے سے ان کی شخصیت اور سوچ میں بہتری آتی ہے اور وہ اپنے معاشرتی کردار میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
1.خود اعتمادی:
قیادت کا سب سے اہم اصول خود اعتمادی ہے۔ ایک اچھا رہنما اپنے فیصلوں اور اقدامات پر یقین رکھتا ہے۔ جب بچے اپنے آپ پر اعتماد کرتے ہیں تو وہ اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے قدم اٹھا سکتے ہیں اور چیلنجز کا سامنا بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کو اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنے کی ترغیب دیں، انہیں کامیابی کے مواقع فراہم کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ خود اعتمادی کا مظاہرہ کرنے والے بچے اوروں کے سامنے اپنی رائے کا اظہار کرنے سے نہیں ہچکچاتے اور اپنے گروپ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
2. دوسروں کا احترام:
قیادت کے اصولوں میں دوسروں کا احترام ایک نہایت اہم جزو ہے۔ ایک اچھا رہنما اپنے ساتھیوں اور دوستوں کا احترام کرتا ہے۔ بچوں کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ ہر فرد کی رائے اہم ہے اور ان کے خیالات کی قدر کی جانی چاہیے۔ احترام نہ صرف دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا نام ہے بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ اپنے گروپ کے ہر فرد کو برابری کی نظر سے دیکھیں اور ان کی مدد کرنے کو تیار رہیں۔ اس کے ذریعے بچوں کو یہ سکھایا جا سکتا ہے کہ قیادت کے دوران محبت، سمجھوتہ اور احترام کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔
3. ٹیم ورک:
ایک اچھا رہنما کبھی بھی اپنی کامیابی کو تنہا نہیں دیکھتا۔وہ اپنی ٹیم کی کامیابی کو اہمیت دیتا ہے۔ بچوں کے لیے یہ سیکھنا ضروری ہے کہ قیادت کا مطلب صرف آگے بڑھنا نہیں بلکہ دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے۔ ٹیم ورک کا مطلب ہے کہ ہر شخص اپنے کام میں ماہر ہو کر گروپ کی بہتری کے لیے کام کرے۔ بچوں میں ٹیم ورک کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے انہیں گروپ کی سرگرمیوں میں حصہ لینے، باہمی تعاون کرنے اور مختلف سرگرمیوں میں دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ترغیب دی جانی چاہیے۔
4. فیصلہ سازی:
ایک رہنما میں صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے اور یہ صلاحیت بچوں میں بچپن ہی سے پیدا کی جا سکتی ہے۔ بچوں کو ان کے فیصلوں کے نتائج سے آگاہ کرنا اور انہیں مختلف موقعوں پر فیصلے کرنے کے لیے تیار کرنا بہت ضروری ہے۔ جب بچے خود فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو وہ اپنے لیے اور اپنے گروپ کے لیے اچھے فیصلے کر پاتے ہیں۔ والدین اور اساتذہ کو بچوں کو ذمہ داری دینے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ وہ اہم فیصلے خود کر سکیں اور ان میں فیصلہ سازی کا اعتماد پیدا ہو۔
5. مخلصی اور ایمانداری:
قیادت میں مخلصی اور ایمانداری کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ایک رہنما کا کردار صرف فیصلے کرنے تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس کے کردار میں ایمانداری اور سچائی کی جھلک بھی نظر آنی چاہیے۔ بچوں کو سچ بولنے، وعدوں کو پورا کرنے اور ہر حالت میں ایماندار رہنے کی ترغیب دینی چاہیے۔ مخلص رہنما ہمیشہ اپنے گروپ کے مفاد کو اپنی ذاتی خواہشات پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ بچے مستقبل میں ایمانداری کے ساتھ اپنے فیصلے کر سکتے ہیں اور دوسروں کی نظروں میں قابل احترام رہ سکتے ہیں۔
6. ہمت اور حوصلہ:
ایک اچھا رہنما کبھی بھی مشکلات سے نہیں ڈرتا۔ قیادت کا ایک اہم پہلو ہمت اور حوصلہ ہے۔ بچوں کو یہ سکھایا جانا چاہیے کہ جب بھی وہ کسی چیلنج یا مشکل کا سامنا کریں انہیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ انہیں دکھایا جائے کہ ناکامیوں سے سبق سیکھنا ضروری ہے اور ہر کامیابی کے راستے میں مشکلات آتی ہیں لیکن ان مشکلات کا مقابلہ کرنا ہی رہنمائی کی اصل طاقت ہے۔
7. رہنمائی اور تربیت:
ایک کامیاب رہنما نہ صرف خود کامیاب ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے گروپ کے دیگر افراد کو بھی آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ بچوں میں یہ صلاحیت پیدا کی جانی چاہیے کہ وہ دوسروں کی رہنمائی کریں اور انہیں اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا موقع دیں۔ یہ رہنمائی کا عمل بچوں میں نہ صرف قیادت کے جذبات کو ابھارتا ہے بلکہ انہیں دوسروں کے لیے مفید بنانے کی طرف بھی لے جاتا ہے۔
قیادت ایک سیکھنے کا عمل ہے۔جب بچوں میں قیادت کے یہ اصول پروان چڑھتے ہیں تو وہ نہ صرف اپنے لیے بہتر فیصلے کرتے ہیں بلکہ اپنے معاشرتی تعلقات میں بھی بہتری لاتے ہیں۔ والدین، اساتذہ اور دیگر سرپرست افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو قیادت کے اصول سکھائیں اور انہیں ایسے مواقع فراہم کریں جہاں وہ قیادت کی مہارتوں کو استعمال کر کے خود کو بہتر بنا سکیں۔ قیادت کی یہ خصوصیات بچوں کی شخصیت کو نکھار کر انہیں زندگی کے ہر میدان میں کامیاب بنانے میں 
مددگار ثابت ہوں گی ان شاء اللہ۔


....🖋️🖋️🖋️🖋️🖋️


بچوں کی تخلیقی صلاحیت کو بڑھانے والے تعلیمی کھیل


تحریر: نکہت انجم ناظم الدین

بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے کئی دلچسپ کھیل کھیلے جا سکتے ہیں۔ یہ کھیل نہ صرف بچوں کے تخیل کو جلا بخشتے ہیں بلکہ ان کی مسئلہ حل کرنے کی قابلیت، انفرادی اور اجتماعی کارکردگی اور ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو بھی پروان چڑھاتے ہیں۔ بچوں کے لیے کچھ تخلیقی کھیلوں کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔یہ تعلیمی کھیل ہم اپنے بچوں کو گھر یا کمرہ جماعت میں کھیلنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔

1- خالی خانوں کی کہانی (Mad Libs):  
خالی خانوں کی کہانی (Mad Libs) ایک ایسا تعلیمی کھیل ہے جو بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ زباندانی کی افہام وتفہیم کو آسان بناتا ہے اور بچے زباندانی میں مہارت حاصل کرتے ہیں۔ اس کھیل میں بچوں کو ایک غیر مکمل کہانی دی جاتی ہے جس میں کچھ الفاظ کی جگہ خالی چھوڑ دی جاتی ہے۔ بچے ان خالی جگہوں کو اسم، فعل، اور صفت سے بھرتے ہیں، جس کے نتیجے میں ایک مزاحیہ اور دلچسپ کہانی سامنے آتی ہے۔ اس کھیل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ بچوں کو مختلف الفاظ کے استعمال سے ایک ہی کہانی کے کئی دلچسپ اور منفرد پہلو تخلیق کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ بچے اپنی زبان دانی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ قواعد کے مختلف نکات کو بھی سیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ میڈ لبس میں بچوں کو تخیل کے استعمال کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ انہیں سوچنا پڑتا ہے کہ کون سا لفظ کس جگہ بہتر طور پر فٹ ہوگا۔ اس عمل کے دوران بچے الفاظ کے معنی اور ان کے استعمال کے حوالے سے اپنی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ کھیل بچوں کی مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت کو بھی بہتر بناتا ہے کیونکہ انہیں فوری طور پر موزوں الفاظ کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔طلبہ کو پوری کہانی کو ذہن میں رکھ کر الفاظ کا انتخاب کرنا ہوتا ہے اسلئے ان میں توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس کھیل میں بہتر کارکردگی انجام دینے والے بچے زبان کی مختلف اقسام سے آشنائی حاصل کرنے کے ساتھ دیگر تخلیقی صلاحیتوں میں بھی مہارت حاصل کرتے ہیں۔

2- آرٹسٹ اور ہدایت کار (Artist and Director):  
آرٹسٹ اور ہدایت کار کھیل کے ذریعے بچوں کی تخلیقی اظہار اور مواصلاتی صلاحیتوں کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ اس کھیل میں ایک بچہ ہدایت کار کا کردار ادا کرتا ہے اور دوسرا آرٹسٹ کا۔ ہدایت کار کسی منظر یا چیز کی وضاحت کرتا ہے اور آرٹسٹ اس وضاحت کی بنیاد پر اسے پینٹ کرتا ہے۔ یہ عمل بچوں کو اپنے خیالات کو واضح اور درست طریقے سے بیان کرنے کی تربیت دیتا ہے۔ آرٹسٹ کے کردار میں بچے تخیل کے استعمال سے تصورات کو حقیقت کا رنگ دیتے ہیں۔ اس کھیل کے ذریعے بچوں میں نہ صرف تخلیقی صلاحیتوں کا فروغ ہوتا ہے بلکہ ٹیم ورک اور مل جل کر کام کرنے کی عادت بھی پیدا ہوتی ہے۔ ہدایت کار کو اپنی ہدایات اس طرح دینا ہوتا ہے کہ آرٹسٹ کو سمجھنے میں مشکل نہ ہو۔ اس سے آرٹسٹ کا کردار ادا کرنے والے طالب علم کی تفصیل پر توجہ دینے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔مجموعی طور پر آرٹسٹ اور ہدایت کار ایک ایسا کھیل ہے جو بچوں کی تخلیقی اور مواصلاتی صلاحیتوں کو فروغ دیتا ہے اور انہیں ٹیم ورک کی اہمیت بتاتا ہے۔

3- کہانی کیوبز (Story Cubes):
کہانی کیوبز کے ذریعے بچوں کی تخیل اور کہانی سازی کی صلاحیتوں کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اس کھیل میں بچوں کو مکعب دیے جاتے ہیں جن پر مختلف تصاویر بنی ہوتی ہیں۔ بچے مکعب کو پھینک کر ان تصاویر کی مدد سے کہانی تخلیق کرتے ہیں۔ ہر مکعب کی تصویر کہانی میں ایک نیا موڑ لے آتی ہے جس سے کہانی مزید دلچسپ اور متنوع بن جاتی ہے۔ یہ کھیل بچوں کو تخلیقی طور پر سوچنے اور مختلف تصورات کو ملا کر ایک مکمل کہانی بنانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کہانی کیوبز بچوں کو تصویروں کو الفاظ میں تبدیل کرنے اور ان سے ایک مربوط کہانی بنانے کی مہارت سکھاتا ہے۔ یہ کھیل بچوں کے ذہنی تخیل کو جلا بخشتا ہے اور انہیں نئے خیالات تخلیق کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ کہانی کیوبز کے ذریعے بچے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے مختلف تصاویر کے ذریعے کہانی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے اور بیان کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ یہ کھیل ان کی زبان کی مہارتوں کو بھی بہتر بناتا ہے کیونکہ انہیں کہانی کو منطقی اور دلکش بنانے کے لیے موزوں الفاظ کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔اس کھیل کے ذریعے بچے کہانی بنانے کی نئی مہارتیں سیکھتے ہیں۔

4- ایک جملہ، ایک کہانی (One Sentence, One Story): 
ایک جملہ، ایک کہانی ایک دلچسپ تعلیمی کھیل ہے جو بچوں کی کہانی سازی کی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا ہے۔ اس کھیل میں ہر بچے کو ایک جملہ کہنے کا موقع دیا جاتا ہے اور اس طرح پوری کہانی آگے بڑھتی ہے۔ ہر بچہ کہانی کا رخ بدل سکتا ہے۔ جو اسے مزید دلچسپ اور متنوع بناتا ہے۔ یہ گیم بچوں کو کہانی کی ساخت کو سمجھنے اور تخلیقی انداز میں سوچنے کی تحریک دیتا ہے۔ اس کھیل کے دوران بچے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے نئے اور منفرد جملے تخلیق کرتے ہیں جو کہانی کو ایک نیا موڑ دیتے ہیں۔ اس کھیل کے ذریعے بچے فوری طور پر نئے خیالات تخلیق کرنے اور انہیں مؤثر طریقے سے بیان کرنے کی صلاحیت سیکھتے ہیں۔ یہ گیم بچوں کی تخلیقی سوچ کو جلا بخشتا ہے اور انہیں مختلف جملوں کو ملا کر ایک مکمل کہانی بنانے کی تربیت دیتا ہے۔ ایک جملہ ایک کہانی کھیل بچوں کو تخیل کے استعمال کا موقع فراہم کرتا ہے اور انہیں سکھاتا ہے کہ کس طرح ایک سادہ جملہ کہانی کو ایک نئے اور دلچسپ رخ پر لے جا سکتا ہے۔یہ کھیل بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کی کہانی کہنے کی صلاحیتوں کو بھی بہتر بناتا ہے۔

5- کاسٹیوم کہانی (Costume Story):
کاسٹیوم کہانی ایک تخلیقی کھیل ہے جو بچوں کو مختلف کرداروں کے روپ میں کہانی بنانے کی صلاحیت سکھاتا ہے۔ اس کھیل میں بچوں کو مختلف کاسٹیومز پہننے کو دیے جاتے ہیں اور پھر ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کاسٹیوم کی بنیاد پر ایک کہانی بنائیں۔اس کھیل کے ذریعے بچوں میں تخلیقی سوچ اور کردار نگاری کی مہارتیں پیدا ہوتی ہیں۔ بچے کاسٹیوم کے کردار میں داخل ہو کر اپنی کہانی کو حقیقی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے بچوں کو اپنی کہانیوں کو مؤثر انداز میں پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔بچے مختلف کرداروں کی نفسیات کو بھی سمجھ سکتے ہیں اور ان کی حرکات و سکنات کو اپنے کرداروں میں شامل کر سکتے ہیں۔ کاسٹیوم کا انتخاب اور کاسٹیوم سے متعلق عادت واطوار ہمیں بچوں کی شخصیت کو بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ یہ کھیل بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ انہیں مختلف کرداروں کی اہمیت اور ان کی نمائندگی کرنے کا فن بھی سکھاتا ہے۔اس کھیل کے ذریعے بچوں کی تخلیقی سوچ اور کردار نگاری کی مہارتیں پروان چڑھتی ہیں۔

6- پہیلیاں (Riddles):  
پہیلیاں بوجھنے کا عمل بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے۔ اس کھیل میں بچوں کو مختلف پیچیدہ سوالات یا مسائل دیے جاتے ہیں جنہیں وہ حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہیلیاں بچوں کو منطقی سوچنے کی تربیت دیتی ہیں کیونکہ یہاں انہیں سوالات کے جوابات کے لیے مختلف امکانات پر غور کرنا پڑتا ہے۔ یہ کھیل بچوں کے دماغ کو مختلف زاویوں سے سوچنے کی تحریک دیتا ہے اور ان کی مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت کو بہتر بناتا ہے۔ پہیلیاں حل کرنے کے دوران ان میں توجہ مرکوز رکھنے کی عادت بھی پیدا ہوتی ہے۔یہاں انھیں سوالات کو سمجھ کر غور و فکر کرنا پڑتا ہے۔ پہیلیاں بچوں کی یادداشت کو بھی بہتر بناتی ہیں کیونکہ وہ مختلف سوالات کے جوابات کو یاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کھیل کے ذریعے بچے اپنے دماغ کی مختلف صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر منطقی اور تخلیقی طور پر سوچنا سیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کو اپنی پہیلیاں تخلیق کرنے کا چیلنج دینا بھی ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے کا ایک مؤثر طریقہ ہے۔

7- خیالی خطوط (Imaginary Letters):  
خیالی خطوط لکھنے کا کھیل بچوں کی تخلیقی اور تحریری صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا ہے۔ اس کھیل میں بچوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ کسی خیالی دوست، شخصیت، یا ماضی یا مستقبل کے کسی فرد کو خط لکھیں۔ اس خط میں بچے اپنی کہانی، خیالات یا احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ کھیل بچوں کو اپنی تخلیقی سوچ کو الفاظ کی صورت میں پیش کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کھیل بچوں کو خیالات کے اظہار کا نیا اور منفرد طریقہ سکھاتا ہے۔ خیالی خطوط لکھنے کے دوران بچے اپنی تخیل کا استعمال کرتے ہوئے ایک ایسی دنیا تخلیق کرتے ہیں جو حقیقت میں موجود نہیں ہوتی۔ یہ عمل بچوں کو اپنے خیالات کو منظم کرنے اور انہیں مؤثر انداز میں پیش کرنے کی تربیت دیتا ہے۔ خیالی خطوط لکھنے کا کھیل بچوں کی تحریری صلاحیتوں کو بھی بہتر بناتا ہے کیونکہ انہیں اپنے خیالات کو ایک مربوط اور منطقی انداز میں بیان کرنا ہوتا ہے۔ بچے اپنے خیالات کو بغیر کسی دباؤ کے بیان کرتے ہیں اس لئے یہ گیم بچوں کو خود اعتمادی اور اظہار خیال کی صلاحیت بھی سکھاتا ہے۔اس طرح کے کھیل بچوں کی تخلیقی اور تحریری صلاحیتوں کو فروغ دیتے ہیں اور انہیں خیالات کے اظہار کا نیا طریقہ سکھاتے ہیں۔

8- تصاویر سے کہانی (Picture Story):  
تصاویر سے کہانی بنانے کا کھیل بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا ہے اور انہیں مختلف تصورات کو کہانی کی شکل دینے کی تحریک دیتا ہے۔ اس کھیل میں بچوں کو مختلف تصاویر دکھائی جاتی ہیں اور ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ ان تصاویر کی بنیاد پر ایک کہانی تخلیق کریں۔ بچے مختلف تصاویر کو ملا کر ایک مکمل کہانی بناتے ہیں جس سے ان کی تخلیقی صلاحیتیں نکھرتی ہیں۔بچوں کو مختلف تصاویر کے ذریعے کہانی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے اور بیان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اسلئے یہ عمل ان کے تخیل کو جلا بخشتا ہے۔اسی طرح انہیں کہانی کو منطقی اور دلکش بنانے کے لیے موزوں الفاظ کا انتخاب کرنا ہوتا ہے اسلئے اس سے طلبہ کی زباندانی کی مہارت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ تصاویر سے کہانی بنانے کا کھیل بچوں کو مختلف تصورات کو ملانے اور ان سے ایک مربوط کہانی بنانے کی تربیت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کھیل بچوں میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے مختلف تصاویر کے ذریعے کہانی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے اور بیان کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔

9- مخفی خزانہ کی تلاش (Treasure Hunt): 
مخفی خزانہ کی تلاش ایک دلچسپ اور تفریحی کھیل ہے جو بچوں کی مسئلہ حل کرنے کی صلاحیتوں کو فروغ دیتا ہے۔ اس کھیل میں بچوں کو مختلف اشارے دیے جاتے ہیں جو انہیں آخر میں خزانے تک پہنچاتے ہیں۔ ہر اشارہ ایک تخلیقی معمہ ہوتا ہے جسے حل کرنے کے بعد بچے اگلے اشارے تک پہنچتے ہیں۔ یہ کھیل بچوں کو مختلف طریقوں سے سوچنے اور مختلف نظریات پر غور کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ مخفی خزانہ کی تلاش کے دوران بچے مختلف راستوں پر چلتے ہیں اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ کھیل بچوں کی تجسس اور مہم جوئی کی فطرت کو جلا بخشتا ہے اور انہیں مختلف مسائل کے حل تلاش کرنے کی تربیت دیتا ہے۔ مخفی خزانہ کی تلاش میں بچوں کو ٹیم ورک اور مل جل کر کام کرنے کی عادت ہوسکتی ہے۔انہیں خزانے کی تلاش کے دوران ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا پڑتا ہے۔ یہ کھیل بچوں کی منطقی سوچ اور فیصلہ سازی کی صلاحیت کو بھی بہتر بناتا ہے، بچوں کی مسئلہ حل کرنے کی صلاحیتوں کو فروغ دیتا ہے اور انہیں ٹیم ورک کی اہمیت سے آشنا کرتا ہے۔

10- موسموں کا کھیل (Weather Game):
موسموں کا کھیل بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے اور انہیں قدرتی مظاہر کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس کھیل میں بچوں کو مختلف موسموں کے بارے میں بات کرنے اور پھر ہر موسم کی نمائندگی کرنے والے کردار یا کہانی تخلیق کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ بچے مختلف موسموں کے ساتھ منسلک منظرناموں کو تخلیق کرتے ہیں جیسے کہ بارش، دھوپ یا برف باری۔اس کھیل کے ذریعے طلبہ مختلف قدرتی مظاہر کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔بچوں کو مختلف موسم اور ان کی خصوصیات کے بارے میں سیکھنے اور کہانیاں تخلیق کرنے کا موقع فراہم کیا جاسکتا ہے۔ اس گیم کے ذریعے بچے مختلف قدرتی مظاہر کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے نئے تصورات کو ایجاد کر سکتے ہیں۔

11- پوسٹر ڈیزائن (Poster Design):
پوسٹر ڈیزائنگ کے عمل میں بچوں کو مختلف تصورات کو تصویری شکل دینے کی تربیت دی جاسکتی ہے۔ اس کھیل میں بچوں کو ایک خیالی فلم، کتاب یا ایونٹ کا پوسٹر بنانے کو کہا جاتا ہے۔ بچے مختلف رنگوں، تصویروں، اور الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے ایک دلکش پوسٹر تخلیق کرتے ہیں۔ یہ گیم بچوں کو تخلیقی ڈیزائننگ کی صلاحیت سکھاتا ہے اور انہیں مختلف تصورات کو تصویری شکل میں پیش کرنے کا موقع دیتا ہے۔ پوسٹر ڈیزائن کا عمل بچوں کی تصوراتی صلاحیتوں کو بھی بہتر بناتا ہے۔انہیں مختلف عناصر کو ملا کر ایک مربوط اور دلکش پوسٹر بنانا ہوتا ہے۔یہ گیم بچوں کی تخلیقی سوچ کو جلا بخشتا ہے اور انہیں مختلف تصورات کو تصویری شکل دینے کی تربیت دیتا ہے۔
مندرجہ بالا تعلیمی کھیل نہ صرف بچوں کی تفریح کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ ان کی ذہنی، تخلیقی اور تعلیمی صلاحیتوں کو بھی پروان چڑھاتے ہیں۔ یہ کھیل انہیں مختلف مسائل کے حل تلاش کرنے، منطقی انداز میں سوچنے، اور تخلیقی انداز میں اپنی بات کو پیش کرنے کی تربیت دیتے ہیں۔ بچوں کو ان کھیلوں میں حصہ لینے سے ان کی خود اعتمادی، تخیل کی وسعت اور ٹیم ورک کی اہمیت کا بھی ادراک ہوتا ہے۔ بچے اپنے خیالات کو بہتر طریقے سے سمجھنے اور انہیں موثر انداز میں بیان کرنے کی صلاحیت حاصل کرتے ہیں۔تعلیمی کھیلوں کا مقصد صرف تعلیم فراہم کرنا نہیں بلکہ بچوں کو ایک ایسا ماحول فراہم کرنا ہے جہاں وہ سیکھنے کے عمل کو دلچسپ اور تفریحی انداز میں تجربہ کریں۔ یہ کھیل بچوں کی مختلف صلاحیتوں کو نکھارنے اور ان کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جب بچے کھیل کے ذریعے سیکھتے ہیں تو وہ زیادہ بہتر طور پر سیکھنے کے قابل ہوتے ہیں اور سیکھنے کے عمل کو زندگی بھر یاد رکھنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔تعلیمی کھیلوں کے ذریعے بچے اپنی سوچ کی دنیا میں نئے امکانات تلاش کرتے ہیں اور انہیں اپنی تخیل کی پرواز کو نئی بلندیوں تک لے جانے کا موقع ملتا ہے۔یہ سرگرمیاں اور ان سے حاصل شدہ مہارتیں مستقبل میں بھی ان کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہیں لہذا والدین اور
اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ان تعلیمی کھیلوں
میں حصہ لینے کی ترغیب دیں تاکہ وہ سیکھنے کے عمل کو زیادہ مؤثر اور دلچسپ بنا سکیں۔


....📄📄📄📄📄


بچے اپنی شخصیت میں خود اعتمادی کیسے پیدا کریں؟

تحریر: نکہت انجم ناظم الدین

پیارے بچو! اللہ نے ہر انسان کو کئی صلاحیتیں عطا کی ہیں۔فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ کچھ افراد اپنی صلاحیتوں، اپنی خوبیوں کو پہچانتے ہیں اور انھیں مزید نکھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ اپنی کوشش میں کامیاب بھی ہوتے ہیں۔یہ کامیابی انھیں خود اعتمادی عطا کرتی ہے۔خود اعتمادی وہ خوبی ہے جو ہمیں اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا سکھاتی ہے۔ جب آپ میں خود اعتمادی ہوگی تو آپ ہر مشکل کام کو آسانی سے کر سکیں گے اور اپنی زندگی میں کامیاب ہوں گے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ خود اعتمادی پیدا کیسے ہوتی ہے؟ آج ہم آپ کو کچھ آسان طریقے بتائیں گے جن کی مدد سے آپ بھی خود اعتماد بن سکتے ہیں۔

1.اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں:
   ہر بچے میں کوئی نہ کوئی خاص صلاحیت ہوتی ہے۔ کوئی خوش خط لکھتا ہے، کوئی کھیل میں ماہر ہوتا ہے، کوئی خوبصورت تصویریں بناتا ہے۔کوئی اچھا گاتا ہے۔کسی کی مطالعہ کرنے کی رفتار اوروں سے زیادہ ہوتی ہے۔کوئی ریاضی کے سوالات چٹکیوں میں حل کرلیتا ہے۔آپ میں بھی ضرور ایسی کوئی خوبی ہوگی جو آپ کو اوروں سے ممتاز کرسکتی ہے۔آپ کو بس اپنی خوبی، اپنی صلاحیت کو پہچاننا ہے اور اس پر کام کرنا ہے۔ اسے مزید نکھارنے کی کوشش کرنا ہے۔جب آپ اپنی خوبیوں کو جان جائیں گے تو خود پر بھروسہ کرنے لگیں گے۔مسلسل مشق اور محنت سے آپ کی صلاحیت نکھر جائے گی اور آپ دنیا کے سامنے خود کو پر اعتماد طریقے سے پیش کرسکیں گے۔ آپ اپنی خود اعتمادی کو بنیادی محرک کے طور پر بھی استعمال کر سکتے ہیں ایسا محرک جو آپ کو مشکلات کا سامنا کرنے کا حوصلہ دیتا ہے،اوروں سے ممتاز کرتا ہے اور ایک مثال بنا کر پیش کرتا ہے۔

2.غلطیوں سے نہ گھبرائیں:
  جب ہم کسی کام کو انجام دیتے ہیں تو ہم سے بہت سی غلطیاں ہوتی ہیں۔چاہے بچے ہوں یا بڑے شروعات میں غلطی ضرور کرتے ہیں لیکن غلطی کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ناکام ہیں۔ غلطیاں سیکھنے کا بہترین موقع ہوتی ہیں۔جب آپ اپنی غلطیوں سے سیکھیں گے تو آپ میں خود اعتمادی بڑھنے لگے گی اور آپ کو پتہ چلے گا کہ اگلی بار آپ بہتر کر سکتے ہیں۔

3.ابتدا چھوٹے چھوٹے کاموں سے کریں:
   بڑے بڑے کام انجام دینے سے قبل چھوٹی چھوٹی سرگرمیاں انجام دیں۔ جیسے کہ اپنا کمرہ صاف کرنا، اپنی کتابیں ترتیب میں رکھنا، یا دوستوں کے ساتھ کھیل میں حصہ لینا۔ جب آپ چھوٹے کام کامیابی سے کریں گے تو آپ کا دل خوش ہوگا اور آپ کو خود پر اعتماد آئے گا کہ آپ بڑے کام بھی کر سکتے ہیں۔

 4.مثبت سوچ رکھیں:
   ہمیشہ اچھا سوچیں۔ جب آپ کے دماغ میں مثبت خیالات ہوں گے تو آپ خود کو خوش اور طاقتور محسوس کریں گے۔ اگر آپ کبھی مشکل میں پڑ جائیں تو یہ سوچیں کہ "میں یہ کام کر سکتا ہوں/کرسکتی ہوں" یا "یہ مسئلہ حل ہو جائے گا"۔ مثبت سوچ آپ کے اندر خود اعتمادی پیدا کرے گی۔

 5.اپنی کامیابیوں اور حصولیابیوں کو یاد رکھیں:
   جب بھی آپ کوئی اچھا کام کریں چاہے وہ کام چھوٹا ہو یا بڑا اسے یاد رکھیں اور خود کو شاباشی دیں۔ یہ آپ کو یاد دلاتا ہے کہ آپ کتنے قابل ہیں۔ اپنی کامیابیوں کو یاد کر کے آپ کو آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا ہے۔

 6. دوسروں کی مدد کریں:
   جب آپ دوسروں کی مدد کرتے ہیں تو آپ میں ہمدردی اور خود اعتمادی دونوں بڑھتی ہیں۔ جیسے اپنے دوست کو کسی کام میں مدد کرنا، یا کسی چھوٹے بچے کو کچھ سکھانا۔ دوسروں کی مدد کرنے سے آپ خود کو اہم اور قابل محسوس کرتے ہیں۔

 7.ہمت نہ ہاریں:
   زندگی میں بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمیں وہ نتیجہ نہیں ملتا جس کی ہم امید کرتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ہار گئے۔ کوشش جاری رکھیں اور خود پر بھروسہ کریں۔ جب آپ محنت کریں گے اور ہمت نہیں ہاریں گے تو کامیابی ضرور ملے گی۔

 8.اچھے دوست بنائیں:
   ایسے دوست بنائیں جو آپ کا ساتھ دیں اور آپ کی حوصلہ افزائی کریں۔ اچھے دوست آپ کے اندر خود اعتمادی بڑھاتے ہیں اور آپ کو سیکھنے میں مدد دیتے ہیں۔اپنی طرح عظیم مقاصد رکھنے والے دوستوں کا ساتھ چنیں۔دوستوں سے سیکھیں۔اپنی اچھی باتیں انھیں سکھائیں۔

9-سماجی سرگرمیوں میں شرکت:
سماجی سرگرمیوں میں شرکت کرنا اور ان میں حصہ لینا بہت اہم ہے کیونکہ اس سے ہم ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے ہیں اور معاشرے کے لیے کچھ اچھا کر سکتے ہیں۔ جب ہم اپنے دوستوں، ہمسایوں یا اسکول کے ساتھیوں کے ساتھ مختلف کاموں میں حصہ لیتے ہیں، تو نئے لوگوں سے ملتے ہیں اور مل کر کام کرنے کا طریقہ سیکھتے ہیں۔ سماجی سرگرمیاں جیسے کہ صفائی مہم، درخت لگانا، یا کسی کی مدد کرنا، ہمیں سکھاتی ہیں کہ ہم سب کو مل کر اپنے معاشرے کو خوبصورت اور بہتر بنانا ہے۔ یہ سرگرمیاں ہمیں ذمہ داری، محبت، اور احترام سکھاتی ہیں۔ جب تم کسی کو مشکل میں دیکھتے ہو اور اس کی مدد کرتے ہو، تو تم دل سے خوشی محسوس کرتے ہو اور دوسروں کے لیے ایک اچھا مثال بنتے ہو۔ سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے تمہاری خوداعتمادی بڑھتی ہے اور تمہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ تم بھی معاشرے میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہو۔ لہٰذا، ہمیشہ تیار رہو کہ جب بھی کوئی سماجی سرگرمی ہو، تم اس میں بھرپور حصہ لو اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کی مدد کرو۔ یاد رکھو، ہم سب مل کر ہی ایک بہتر دنیا بنا سکتے ہیں۔انفرادی اور اجتماعی سرگرمیوں کو انجام دینا جو سماج کے لئے بھی کارآمد ہوں ہماری خود اعتمادی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔

10-تنقید سے نہ گھبرائیں:

کبھی کبھار جب ہم کوئی کام کرتے ہیں تو غلطی ہونے پر ہمیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس سے آپ کو برا محسوس ہو سکتا ہے، لیکن یاد رکھئے کہ تنقید ہمیشہ بُری نہیں ہوتی۔ اکثر تنقید ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم اپنے کام کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں؟جب کوئی آپ کے کام میں کوئی غلطی بتاتا ہے یا کوئی مشورہ دیتا ہے، تو اسے غور سے سنئے اور سوچئے کہ کیا واقعی میں اسے ٹھیک کر سکتا ہوں/کرسکتی ہوں۔تنقید کو دل پر لینے کی بجائے، اسے ایک موقع سمجھیں کہ میں مزید بہتر بن سکوں۔ کامیاب لوگ ہمیشہ تنقید کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اور اس سے سیکھتے ہیں۔صحتمند تنقید کا سامنا کرنا اور اپنی غلطی کی اصلاح کرنا آپ کو خود اعتماد بناتا ہے۔

11-نئے تجربات سے نہ گھبرائیں:
پیارے بچو! کبھی کبھی نئے کام کرنے یا نئی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے ہم تھوڑا گھبرا جاتے ہیں لیکن یاد رکھئے کہ ہر نیا تجربہ آپ کو کچھ نیا سکھاتا ہے۔ جب آپ کوئی نیا کھیل سیکھتے ہیں، کوئی نیا مضمون پڑھتے ہیں، یا کوئی نیا ہنر آزماتے ہیں، تو آپ کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور مہارت دونوں بڑھتی ہیں۔ اگر کبھی آپ کو محسوس ہو کہ یہ کام مشکل ہے یا آپ اس میں ناکام ہو جاؤ گے، تو بالکل بھی پریشان نہ ہونا! یاد رکھئے! ناکامی دراصل ایک موقع ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سیکھیں اور اگلی بار بہتر کریں۔ دنیا کے بڑے بڑے کامیاب لوگ بھی کبھی ناکام ہوئے تھے، مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔جب آپ اس نئے کام کو صحیح طریقے سے کرنے کے قابل ہوجائیں گے تو اس سے آپ کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا۔
ااپنی شخصیت میں خود اعتمادی پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ بس آپ کو اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرناہے، مثبت سوچ کو اپنانا ہے، منفی خیالات سے دور رہنا ہے، اپنا حوصلہ خود بننا ہے اور مسلسل کوششیں جاری رکھنی ہیں۔ جب آپ ان باتوں پر عمل کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ آپ میں ایک نئی طاقت پیدا ہو رہی ہے اور آپ ہر کام کو پورے اعتماد کے ساتھ کر سکیں گے۔ یاد رکھیں! آپ خاص ہیں اور ان شاء اللہ آپ سب کچھ کر سکتے ہیں۔


.....📚📚📚📚📚


بچوں کی ذہنی اور اخلاقی نشوونما

تحریر: نکہت انجم ناظم الدین
سماج افراد کا مجموعہ ہوتا ہے ۔سماج میں مختلف ماہرانہ صلاحیت رکھنے والے افراد پر سماج کی ترقی کا انحصار ہوتا ہے ۔صحتمند ذہنیت رکھنے والے افراد صحتمند معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں اور یہ صحت مندانہ ذہنیت اور صحتمندانہ عادت واطوار فرد میں بچپن سے ہی پرورش پاتے ہیں۔کہا جاتاہےکہ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے ۔بچہ طرز گفتگو سے لے کر طرز زندگی تک اپنی ماں سے سیکھتا ہے۔ بچے کی تربیت میں ماں کے بعد گھر ،خاندان اور سماج کی اقدار اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ بچہ سن کر اتنا زیادہ عمل نہیں کرتا ہے جتنا کہ وہ اپنے بڑوں کی پیروی کرتا ہے۔ان کے افعال اور اعمال کا بہت جلد اثر قبول کرتا ہے۔
بچے کی شخصیت میں سیکھنے اور سمجھنے کے جذبے کو وحید الحق صدیقی لہروں سے تشبیہ دیتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ
"اس کے اندر امنگوں اور جوش نمو کی لہریں موجزن ہوتی ہیں ۔اس کی سیرت کی تشکیل کا انحصار سمت پر ہوتا ہے۔ جس طرف یہ لہریں بہنے لگیں اگر انہیں اچھی سمت اور راستہ مل جاتا ہے تو سیرت اچھی شکل اختیار کر لیتی ہے اور اگر وہ لہریں بری سمت کی طرف بہنے لگیں تو بری سیرت کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔بچوں میں خوشی اور حیرت کا تیز احساس، زندگی کی تازگی اور خوشنمائی، ہستی نادیدہ پر ایمان ،شگفتہ تخیل اور ذوق تجسس خصوصیت سے موجود ہوتا ہے۔"
      بچے کو اپنے اطراف میں صحت مند ماحول کی بہت ضرورت ہوتی ہے اگر سماج میں صحت مند ماحول نہ ہو تو بچے کے لیے اسکول اور گھر کی تعلیمات بے معنی ہوجاتی ہیں۔گھر میں سرپرستوں اور اہل خانہ اوراسکول میں ساتھی طلبہ کا رجحان جس طرح کا ہوتا ہے بچے میں اسی سے متعلقہ مطابقت پیدا ہوتی ہے۔ بچوں کی نفسیات کو سمجھنے کے لئے ہمیں خود کو ان کی جگہ رکھ کر دیکھنا چاہیے۔ بچوں کی ذہنیت، ان کی نفسیات کو قریب سے ہم تب ہی دیکھ سکتے ہیں جب ہم خود اپنے بچپن میں لوٹ جائیں۔ جو باتیں ہمیں خوش کرتی تھیں، جن باتوں کو لے کر ہم ملول ہو جاتے تھے ،ہمارا جوش،تجسس، دوستی ،دشمنی غرض ہر جذبہ جوہم محسوس کر سکتے ہیں اور اسی کے آئینے میں اپنے بچوں اور اپنے طلبا کو بہت اچھے طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ بہتر دیکھ بھال کے لئے ان پر مثبت اثرات مرتب کرنے کے لیے ہمیں ان کے قریب ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ بچہ جب ہم پر بھروسہ کرنے لگتا ہے تو ہماری عادت واطوار کو قریب سے دیکھنے لگتا ہے تب ہم اس کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت اختیار کر جاتےہیں۔ وہ ہماری شخصیت سے اچھی اور بری دونوں باتوں کا اثرلیناشروع کر دیتا ہے ۔ایسے میں یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ بچے کے لیے اپنے قول و فعل میں یکسانیت کی وہ مثال سیٹ کریں جس سے بچہ ہم سے مثبت رویہ، مثبت اقدار اور مثبت معاشرتی طرز لے سکے اور اسے اپنا کر معاشرے کا بہترین فرد بن سکے۔
بچوں کی ذہنی اور اخلاقی اقدار کو پروان چڑھانا ہماری ذمہ داری بھی ہے اور فرض بھی۔ ایک صحت مند ذہنیت رکھنے والا فرد چاہے وہ بچے کے سرپرست ہو،معلم ہو یاسماج سے متعلق کوئی فرد ہو اسے چاہیے کہ بچے کے ذہن میں ان تمام اقدار کو داخل کرنے میں معاون و مدد گار ثابت ہو جس کی عظمت اس کے خود کے دل میں ہو۔ ہمیں اپنے بچوں اور طلبہ کو غور سے سننے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ ان کا اعتماد حاصل کرنا چاہئے اور ان کے مسائل بغور سن کر ،سمجھ کر اس کا کوئی مثبت حل نکالنا چاہیے ۔عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ ہم بچوں کے مسائل اور ان کی ذہنی کیفیت کو سمجھ نہیں پاتے ہیں اور اپنے طور پر نتائج اخذ کرلیتے ہیں ۔ایک مہینہ قبل میرا میری کزن سسٹر کے گھر جانا ہوا۔ اس نے بتایا کہ اس کی بیٹی ایک مہینے سےا سکول نہیں جا رہی ہے، اسے پیار سے سمجھایا، ڈانٹ ڈپٹ کی، سختی کی لیکن وہ کسی صورت اسکول جانے کے لیے تیار ہی نہیں ہے ۔میں نے نرمی سے اس سے بات کی، اسے سمجھایا، اسے اعتماد میں لے کر اس کے پیچھے کی وجہ جاننے کی کوشش کی۔ ۸ سالہ بچی نے بتایا کہ ایک بار جب وہ اسکول کے واش روم کے اندر تھی باہر سے بچوں نے دروازہ لاک کردیا بعد میں دروازہ پیٹنے پر اسے باہر تو نکالا گیا لیکن اس واقعے کا ڈر اس کے دل میں اس طرح بیٹھ گیا کہ وہ اسکول جانے کا نام ہی نہیں لینا چاہتی تھی۔ ایک ذہین بچی کا ایک ماہ تعلیمی نقصان ہوتا رہا ۔اگر جماعت معلمہ اور اس کے والدین اسے اعتماد میں لے کر اس کا مسئلہ سمجھتے اور اس کا حل نکالنے کی کوشش کرتے تو یہ صورتحال درپیش نہ ہوتی۔
بچوں کو صحیح غلط میں تمیز ،اچھائی اور برائی کا فرق ،بڑوں کا ادب ،چھوٹوں سے شفقت ، والدین ،معاونین اور دیگر افراد خانہ کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔بچوں کو شخصی طور پر مضبوط کرنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ ان کی تمام خواہشات پوری نہ کی جائے۔کچھ خواہشات ادھوری ہوں تو بچوں میںSelf control کا جذبہ بھی پیدا ہوگا۔ نفس پر قابو پانے کی خوبی آئے گی ۔بچوں کی تربیت کرنے والوں کا اصل مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ان میں ضبط نفس مکمل طور سے پیدا ہو اوراپنے ضمیر کی آواز کے مطابق وہ اس پر قابو بھی پا سکیں۔ اخلاقی نظم ،معاشرتی نظم ،اور ماحول سے مطابقت اور ہم آہنگی بھی شامل تربیت ہو ۔ بچوں میں مسابقتی جذبہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اسے بچوں کو مضبوط طریقہ کار کے ذریعے سکھایا جا سکتا ہے ۔علمی میدان،کھیلوں میں مقابلہ أرائی کرواکے بچے کے اس جذبے کی تسکین کی جا سکتی ہے۔ بشرط یہ کہ اسے باور کرا دیا جائے کہ ہار اور جیت کھیلوں اور مقابلوں کا حصہ ہے اور اسے دل پر نہ لیا جائے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں بچے اپنے والدین کے اقتدار ،پیسے، طاقت وغیرہ کا رعب دوسروں پر ڈالنے کی عادی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ superiority complex کا شکار ہوتے ہیں۔ خود کو برتر اور دیگر لوگوں کو کمتر سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے کم عمر بچوں میں عاجزی، انکساری اور سب کو یکساں سمجھنے کی عادت ڈالیں۔ بچوں میں مذہب کی نمو، اللہ کی بلند عظیم طاقت کا احساس، اللہ کی اطاعت، اللہ کے رسول کی اتباع، سچ جھوٹ ،حرام اور حلال کا تصور، اللہ سے روحانی تعلق_ دعاؤں کے ذریعہ خواہشات کی تکمیل یہ تمام تصورات سے بچوں کو والدین اور اساتذہ نے روشناس کرانا چاہئے۔
    ماہر نفسیات ڈاکٹر عبد الرؤف اپنی کتاب 'بچوں کی نفسیات' میں' بچوں کی مذہبی تعلیم' سے متعلق لکھتے ہیں کہ
"مذہبی تعلیمات انسان کو اخلاقی بدحالی، کلیت پسندی، نفرت ،عداوت، قنوطیت پسندی، یا س اور جہالت کی تاریکیوں سے نجات دلاکر تمدن کی شاہراہ پر گامزن کرتی ہے ۔مذہب کا مقصد خدا اور اس کے بندوں کے مابین محبت پیدا کرنا ہے اور یہی پرخلوص محبت انسان کو انسان بنانے کے لئے بہترین جذبہ اور معاشرتی شعور پیدا کرنے کی بہترین تربیت ہے۔"
      بہت سے بچوں میں Leadership quality بھی ہوتی ہے اسے پالش کر کے بچوں کو صحیح راہ دکھائی جا سکتی ہے اور ان سے عظیم مقصد حیات کے طور پر کام لیا جا سکتا ہے۔ تربیت کے دوران ہم بچوں کے رجحانات پر شعوری طور پراثر ڈالتے ہیں اس لیے ہمیں یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کہ ہمارے اور بچے کے نقطہ نظر میں کیا اور کتنا فرق ہے؟ اس کے مطابق ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ ہم اس کی فطرت کے مثبت پہلوؤں کو قوی بنانے میں مددگار ہوں اور برے پہلوؤں پر بہت توجہ سے اس کی مدد کریں ۔بچوں کی صحیح تربیت سے بہترین افراد تیار ہونگے اور بہترین افراد سے بہترین معاشرہ۔ بقول اقبال

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی


.....📔📔📔📔📔


ڈیجیٹل دنیا

تحریر: نکہت انجم ناظم الدین

پیارے بچو! آپ بخوبی واقف ہیں کہ موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔زندگی کے تمام شعبہ جات میں ٹیکنالوجی کا استعمال وسیع پیمانے پر ہورہا ہے اور کیوں نہ ہو بچوں اور بڑوں سبھی کی دلچسپیوں کا سامان یہاں موجود ہے۔ آپ کے پسندیدہ گیمز، پزلز، ای لائبریریز ، ویڈیوز کی شکل میں موجود تعلیمی مواد، آن لائن اساتذہ ،سب آپ کی ایک کلک پر دستیاب ہے۔لاکھوں لوگ اس ٹکنالوجی کا صحیح اور محفوظ طریقے سے استعمال کرکے اس سے استفادہ کررہے ہیں تو وہیں کچھ لوگ ٹیکنالوجی کے اس جال میں پھنس کر ناصرف خود گمراہ ہوجاتے ہیں بلکہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کا بھی سبب بن جاتے ہیں۔ بچے ٹیکنالوجی کا محفوظ طریقے سے استعمال کیسے کریں؟ یہ سیکھنا بہت ضروری ہے۔ چاہے آپ گیمز کھیل رہے ہوں، ویڈیوز دیکھ رہے ہوں یا دوستوں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہوں، یہاں کچھ مفید مشورے ہیں جو آپ کو ڈیجیٹل مواد سے بحفاظت استفادہ کرنے کے طریقۀ کار سمجھنے میں رہنمائی کریں گے۔

1۔کچھ بنیادی اصول بنائیں:
جیسے کہ آپ کو آپ کے پسندیدہ گیم کھیلتے وقت دیے گئے اصولوں کا پابند رہنا ضروری ہوتا ہے اسی طرح ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے بھی کچھ اصول وقواعد کا پابند ہونا ضروری ہے۔ اپنے والدین یا سرپرستوں سے بات کریں کہ آپ آن لائن کتنا وقت گزار سکتے ہیں؟ کس قسم کے مواد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں؟ اسی طرح دیگر لوگوں کے ساتھ محترم اور شائستہ سلوک کرنے کے بارے میں بھی بات چیت کریں۔

2۔اپنے اسکرین ٹائم پر نظر رکھیں:
ڈیجیٹل دنیا میں داخل ہونے کے بعد بچے وقت کو بھول جاتے ہیں۔جہاں ایک گھنٹہ اسکرین استعمال کرنا ہے وہاں دو تین گھنٹے گزرنے تک بھی خبر نہیں ہوپاتی۔اسلئے وقت کا ریمائنڈر بے حد ضروری ہے اسی طرح اسکرین ٹائمنگ کے لئے وقت کی تقسیم بھی ضروری ہے۔کوشش کریں کہ وقت کو تقسیم الاوقات کے مطابق استعمال کریں اور آف لائن سرگرمیاں بھی انجام دیں۔باہر جا کر کھیلیں۔ورزش کریں۔ہوم ورک، پڑھائی سبھی کو نظام الاوقات کے مطابق انجام دیں۔

3۔"آن لائن سیفٹی"کے بارے میں سیکھیں:
انٹرنیٹ ایک بڑا دلچسپ کھیل کا میدان ہے۔ لیکن آپ کا اس جگہ کا استعمال کرتے وقت محفوظ رہنا بھی ضروری ہے۔ اپنے والدین یا سرپرستوں سے بات کریں کہ کس طرح اپنی شخصی معلومات کو محفوظ رکھیں؟ اجنبیوں سے بات کرتے وقت احتیاط کریں، اور اگر کچھ بھی آن لائن غیر مہذب نظر آتا ہے تو کیا کرنا چاہئے؟اس بارے میں گھر کے بڑوں اور اساتذہ سے بات کریں اور سمجھیں۔

4۔ہوشیار صارف بنیں:
ڈیجیٹل دنیا کو ایکسپلور کرتے وقت آپ کو اپنی ذہانت کا استعمال کرنا چاہئے کہ کیا صحیح ہے؟ کیا غلط ہے؟ کسی بھی نئی اپلیکیشن کو چاہے وہ آپ کے گیمز سے متعلق ہو، ویڈیوز کی کوئی اپلیکشن ہو یا تعلیم وتعلم سے متعلق ہو، اپنے الکٹرانک ڈیوائسز میں ڈاؤنلوڈ کرنے سے قبل اپنے والدین کو ضرور دکھائیں۔اگر آن لائن آپ کو کچھ بھی سمجھنے میں دقت ہوتی ہے تو اپنے بڑوں سے ضرور پوچھ لیں۔ یاد رہے، اگر آپ کو کسی مشکل کا سامنا ہوتا ہے تو مشکل سے باہر آنے کے لئے مدد مانگنا بھی بہترین طریقہ ہوتا ہے۔

5۔ احترام اور شائستگی سے پیش آئیں۔
جس طرح ہم اپنی عملی زندگی میں اچھے بچے ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔سبھی کے ساتھ محبت، احترام اور شائستگی کے ساتھ پیش آتے ہیں اسی طرح انٹرنیٹ پر بھی دوسروں کے ساتھ احترام اور شائستگی سے پیش آنا ضروری ہے۔ لوگوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کریں جیسا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ساتھ کیا جائے۔منفی ریمارکس نہ دیں۔اگر آپ نے کسی کے آن لائن مواد سے استفادہ کیا ہے تو شکریہ ضرور ادا کریں۔آن لائن کلاسز میں ایک اچھے طالب علم کی طرح پیش آئیں۔ 

6۔نئی اور دلچسپ چیزیں دریافت کریں۔
ڈیجیٹل دنیا میں کھوج کرتے وقت بہت سارے دلچسپ اور نئی باتیں سیکھنے کے مواقع موجود ہیں۔ چاہے آپ تعلیمی ویڈیوز دیکھ رہے ہوں، دوستوں کے ساتھ گیمز کھیل رہے ہوں، یا سائنس، جغرافیہ، ماحولیات سے متعلق آن لائن معلومات کھوجنے میں مصروف ہوں۔آپ پر معلومات کے نئے نئے در وا ہوتے چلے جائیں گے۔آج آپ کو کچھ سیکنڈ میں ڈھیر ساری معلومات حاصل کرنا ہے تو اس کے لئے بہترین ذریعہ چیٹ جی پی ٹی ہے۔چیٹ جی پی ٹی کے استعمالات کے بے شمار فوائد ہیں۔آپ انٹرنیٹ کی دنیا میں بہت عمدگی کے ساتھ اس کا استعمال کرسکتے ہیں۔چیٹ جی پی ٹی اور استعمال کے طریقۀ کار کا ذکر میں اگلے مضمون میں تفصیل کے ساتھ کروں گی ان شاء اللہ۔ ڈیجیٹل دنیا کی کھوج کرنا ایک بے حد دلچسپ سفر ہے۔جس میں ہر قدم پر دلچسپ دریافتیں ہوں گی۔بس آپ اپنے جوش و جذبہ کو زندہ رکھیں اور ہمیشہ نئی باتوں کو سیکھنے کے لئے تیار رہیں۔ چاہے وہ نئی ویب سائٹس کی دریافت ہو، کوڈنگ کا امتحان لینا ہو، یا آن لائن دلچسپ سائنسی تجربات کے بارے میں سیکھنا ہو، یاد رکھیں کہ انٹرنیٹ آپ کے لیے علم کا خزانہ ہے جو انتظار کر رہا ہے کہ آپ اسے کھوجیں۔

8۔ اپنی معلومات کو محفوظ طریقے سے ساجھا کریں:
جب آپ آن لائن کچھ سیکھتے ہیں اور نئی باتیں دریافت کرتے ہیں۔یا کسی اپلیکشن کی شروعات کرنی ہو تو وہ ہم سے متعلق معلومات چاہتی ہے۔ایسے وقت پر اپنی معلومات کو محفوظ اور ذمہ دارانہ طریقے سے ساجھا کریں۔غیر ضروری اور نجی معلومات بالکل شیئر نہ کریں۔ بہتر ہے کہ کسی سے کچھ شیئر کرنے سے پہلے اپنے والدین یا سرپرستوں کی اجازت حاصل کریں۔

9۔ضرورت محسوس ہونے پر مدد مانگیں:
ڈیجیٹل دنیا میں بوقت ضرورت مدد مانگنا بے حد آسان ہوگیا ہے۔آپ "گوگل اسسٹنٹ" اور "چیٹ جی پی ٹی" سے مدد حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر آن لائن مواد یا ویڈیوز آپ کو پریشانی میں ڈالتے ہیں تو آپ اپنے والدین اور اساتذہ سے مدد مانگ سکتے ہیں۔آن لائن سیکھنا اور فائدہ حاصل کرنا اپنی جگہ لیکن آپ کی حفاظت اور خوشحالی سب سے اہم ہے۔

10۔سائبر ایذا رسانی(cyberbullying) سے محتاط رہیں:
پیارے بچو! یاد رکھئے! ڈیجیٹل دنیا ہمیشہ دوستانہ نہیں ہوگی۔کبھی کبھی لوگ آن لائن بدتمیز یا نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ کو کبھی بھی سائبر ایذا رسانی کا سامنا ہوتا ہے یا کسی اور کو سائبر ایذا رسانی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، تو گھبرائیں نہیں بلکہ مدد کی درخواست کریں۔والدین، سرپرستوں اور اساتذہ سے بات کریں یا موجودہ پلیٹ فارمز پر دستیاب رپورٹنگ ٹولز استعمال کریں۔ یاد رکھیں، ہر شخص کو انٹرنیٹ پر تحفظ اور احترام کا فراہم ہونا اس کا حق ہے۔

11۔ اپنے ڈیجیٹل آلات کو محفوظ بنائیں:
 اپنے ڈیجیٹل آلات کو محفوظ بنانا ضروری ہے۔سب سے اہم ہے کہ مضبوط پاس ورڈ استعمال کریں، نئی ایپس ڈاؤن لوڈ کرتے وقت احتیاط برتیں۔ڈیجیٹل خطرات سے بچنے کے لئے اپنے ڈیوائسز کے سافٹ ویئر کو اپڈیٹ رکھیں۔

12۔ اپنی اسکرین ٹائمنگ اور دیگر سرگرمیوں میں توازن برقرار رکھیں:
ڈیجیٹل دنیا میں ہر وقت گم رہنا ٹھیک نہیں ہے۔آپ بوقت ضرورت مؤثر طریقے سے اس کا استعمال کرسکتے ہیں۔آپ کا اپنے اسکرین ٹائم کو دیگر سرگرمیوں کے ساتھ متوازن رکھنا بھی ضروری ہے۔باہر وقت گزاریں، کھیل کھیلیں، جسمانی مشق میں مشغول رہیں، اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ خوشگوار وقت گزاریں۔

13۔اپنے تجربات کو ساجھا کریں اور دوسرے کے تجربات سے بھی سیکھیں:
جب آپ ڈیجیٹل دنیا کو کھوجتے ہیں اس سے کچھ نیا سیکھتے ہیں تو اپنے تجربات کو دوستوں اور جماعت کے ساتھیوں سے ساجھا کریں اور دوسروں کے تجربات سے سیکھیں۔مثلا دوستوں کو نیا گیم سکھانا ہو یا ان سے نیا گیم یا نئی آن لائن سرگرمیاں سیکھنی ہوں، اپنی جماعت کے ساتھیوں کے ساتھ ایک دلچسپ ویب سائٹ کا شیئر کرنا ہو، یا آن لائن مل کر ایک دلچسپ منصوبہ بنانا ہو، علم و تجربہ کا بانٹنا ڈیجیٹل سفر کو اور مزیدار بنا سکتا ہے۔

پیارے بچو! آپ مندرجہ بالا مشوروں پر عمل کرکے ڈیجیٹل دنیا میں محفوظ اور ذمہ دارانہ طریقے سے داخل ہوسکتے ہیں اور نئی نئی باتیں اور نئی نئی معلومات دریافت کرسکتے ہیں۔


.....🗞️🗞️🗞️🗞️🗞️


مؤثر مطالعہ اور امتحان کے بہتر نتائج کے لئے طلبہ کو کچھ مشورے

تحریر: نکہت انجم ناظم الدین

موجودہ دور مسابقت کا دور ہے۔طلبہ کے لئے بے شمار چیلنجز ہوتے ہیں جن کا سامنا کرکے ہی وہ کامیابی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔ہر فیلڈ میں بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ہر طالب علم خود کو ثابت کرنے کے لئے اور اپنے امتحانات میں بہتر نتائج اخذ کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا چاہتا ہے۔ہمارے مطالعے کی تکنیک جتنی مؤثر ہوگی،تصورات جس قدر واضح ہوں گے،اور اپنی فیلڈ سے متعلق جتنا زیادہ علم ہوگا ہماری کارکردگی اتنی ہی بہترین ہوگی۔اسی کے پیش نظر طلبہ کے لئے مطالعہ اور بہتر نتائج کے لئے مندرجہ ذیل مشورے حاضر خدمت ہیں۔

۱۔دلچسپ وسائل مطالعہ کا انتخاب۔
 مختلف طلبہ کی تعلیمی استعدادیں مختلف ہوتی ہیں۔اسلئے ہمیں اپنے پسند کے وسائل کا انتخاب کرنا چاہئے۔مثلا۔ تصویری، سماعتی، حرکتی وغیرہ یہ تعین کریں کہ آپ کے لیے کونسا طریقہ بہتر ہے۔

۲۔مطالعے کے لئے مناسب ماحول کا انتخاب۔
 ایک خاموش، روشنی سے بھرپور جگہ کا انتخاب کریں جہاں کسی طرح کا کوئی انتشار نہ ہو اور آپ آرام سے اپنی پڑھائی جاری رکھ سکیں۔

۳۔حقیقت پسندانہ اہداف کا تعین کریں۔   
اپنے مطالعے کے اوقات کو مناسب تقسیم الاوقات میں تقسیم کریں اور حقیقت پسندانہ اہداف کا تعین کریں۔

۴۔مضامین/موضوعات کو ترتیب دیں۔
 مضامین یا موضوعات کو ان کی اہمیت سے متعلق ترتیب دیں۔پہلے زیادہ اہم مضامین/موضوعات پر توجہ مرکوز کریں۔اس کے بعد درمیانی اور آخر میں آسان موضوعات پڑھ لیں۔شروعات میں اہم یا مشکل موضوع کا مشورہ میں نے اسلئے دیا ہے کہ بالکل شروعات میں ہمارا موڈ فریش ہوتا ہے۔ہم تازہ دم ہوتے ہیں۔اس لئے مشکل مضمون بھی بار محسوس نہیں ہوتا ہے۔

۵۔وقت کی تقسیم۔
    مخصوص مضامین اور موضوعات کے مطالعے کے لیے وقت کی منظم تقسیم کریں۔ یہ منظم روٹین بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔آپ اپنی دن بھر کی سرگرمیوں کا تقسیم الاوقات بھی ترتیب دے سکتے ہیں۔

 مؤثر مطالعہ تکنیک:

۶۔فعال مطالعہ۔
   مواد کے مطالعہ کے ساتھ فعال رہیں۔نوٹس بناتے چلیں ،سوالات کریں،ان کے جوابات حاصل کریں اور مبہم اور غیر واضح تصورات کی وضاحت اور ڈسکشن دوستوں یا اساتذہ کے ساتھ کریں۔

۷۔فلیش کارڈ اور مینمونکس کا استعمال۔
 فوری جائزے کے لئے فلیش کارڈز اور مشکل معلومات یاد رکھنے کے لیے مینمونکس کا استعمال کریں۔

۸۔زیر مطالعہ مواد کی تدریس۔
ہم پڑھے ہوئے موضوعات اپنے پیئر گروپ کے ساتھ آزما سکتے ہیں۔ زیر مطالعہ مواد کی تدریس کی پریکٹس کریں۔اس سے آپ کو سمجھ آئے گا کہ آپ نے جس موضوع یا تصور کا مطالعہ کیا ہے وہ تصور کتنا واضح ہوا ہے یا اس پر آپ کو مزید محنت کی ضرورت ہے۔

نوٹس بنانے کی تکنیک

۹۔مختصر یادداشت:
 مواد کو اپنے لفظوں میں لکھا جائے یا اس کے نوٹس بنائے جائیں تو یاد رکھنے اور اعادہ کرنے میں بے حد آسانی ہوتی ہے۔ہم اہم نکات کو بصورت رنگین نوٹ چٹس مطالعے کی میز سے منسلک دیوار پر چسپاں بھی کرسکتے ہیں۔

۱۰۔مائنڈ میپنگ:
  تصورات کی وضاحت اور ان کے مابین تعلق کو مائنڈ میپس کا استعمال کرکے ذہن میں رکھا جاسکتا ہے۔

مطالعے کی صحتمندانہ عادات۔

۱۱۔دوران مطالعہ چھوٹے چھوٹے وقفے لیں۔
 مطالعہ کے دوران چھوٹے وقفے لیں تاکہ توجہ برقرار رہے اور برین آؤٹ نہ ہو۔بوریت محسوس نہ ہو اور آپ تازہ دم ہوکر دوبارہ اپنے مطالعہ کی میز پر لوٹ سکیں۔

۱۲۔جسمانی سرگرمیاں:
  اپنی روٹین میں باقاعدہ ورزش شامل کریں۔اس سے آپ تازہ دم محسوس کریں گے اور دماغی اور ذہنی سرگرمیوں میں مدد ہوگی اور مطالعہ کو آگے بڑھایا جا سکے گا۔

وسائل کا مؤثر استعمال:

۱۳۔متعدد وسائل کا استعمال:
 درسی کتابیں، آن لائن وسائل، ویڈیوز اور دیگر مواد کا استعمال کریں تاکہ تصورات کی جامع تفہیم ہوسکے۔اسی طرح آپ اپنے موضوع سے متعلق ویب سائٹس،بلاگس وغیرہ کا استعمال کرسکتے ہیں یا چیٹ جی پی ٹی کو بروئے کار لاسکتے ہیں۔

۱۴۔حسب ضرورت مدد طلب کریں:
 مبہم اور غیر واضح تصورات میں اساتذہ اور ساتھی طلبہ کی مدد لینے میں ہچکچائیں مت۔جب بھی ضرورت ہو اوروں سے مدد مانگیں۔

 امتحان کی تیاری:

۱۵۔گزشتہ سالوں کے/پچھلےپرچے حل کریں:
 امتحانات میں پرچے کے فارمیٹ کو جاننے کے لئے پچھلے کچھ سالوں کے پرچے حل کریں۔آپ کو سوالنامے کے خاکے کو سمجھنے میں بھرپور مدد ملے گی۔

۱۶۔اپنی تیاری کا جائزہ لیں:
 اپنے سیکھے ہوئے مضامین و موضوعات کا جائزہ لیتے رہیں۔جن تصورات پر مزید محنت یا توجہ کی ضرورت ہو تو اس پر غور کریں۔

 ذہنی تناؤ یا کشیدگی کا نظم:

۱۷۔صحتمند زندگی جئیں:
 مثبت نتائج حاصل کرنے کے لئے کافی نیند، متوازن غذا، اور تناؤ سے آزاد رہنے والی تکنیکوں کا خیال رکھیں۔

۱۸۔ذہن سازی اور آرام :
 کسی بھی طرح کے تناؤ سے آزاد رہنے کے لئے خود کی ذہن سازی کریں۔ذہن کو آرام دیں۔غیر ضروری باتوں کو سر پر سوار نہ کریں۔

 مسلسل بہتری:

۱۹۔قدر پیمائی اور مطابقت:
اپنے مطالعے کی تکنیکوں کا درمیان میں جائزہ لیں اور جو بھی بہتر نتائج دے رہی ہیں انھیں اپنائیں۔جہاں طریقہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تبدیل کردیں۔

۲۰۔حوصلہ برقرار رکھیں:
 عظیم مقاصد ذہن میں رکھیں۔طویل مدتی کامیابی کے منصوبے بنائیں۔اپنی چھوٹی چھوٹی حصولیابیوں کا جشن منائیں۔چھوٹی چھوثی ناکامیوں سے دلبرداشتہ نہ ہوں۔
ان حکمت عملیوں کو اپنی مطالعہ کی روٹین میں شامل کریں، مگر یاد رہے، ہر شخص کی ذہنی استعداد اور صلاحیت الگ الگ ہوتی ہے۔ اس لئے آپ کو جو تکنیک بہتر نتائج دیتی ہے آپ اسے اختیار کریں۔مختلف تکنیکوں کے ساتھ تجربہ بھی کریں اور انہیں اپنی پسندیدہ بنانے کے لئے اپنی ترجیحات کے مطابق ترتیب دیں۔

آپ کی کامیابی کے لئے چند آخری مشورے:

۲۱۔خود پر اعتماد ررکھیں:
 خود پر اعتماد اور اپنی قابلیتوں پر یقین رکھیںں۔آپ جتنا بہتر کرسکتے ہیں کریں۔

۲۲۔ہمیشہ نئی چیزیں سیکھیں:
 ہمیشہ نئی نئی چیزیں سیکھیں اور اپنی شخصیت میں نئی باتیں شامل کریں۔جب ہم نئی باتوں کی آموزش کے لئے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں ہمیں سیکھنے میں دلچسپی محسوس ہوتی ہے اور ہم جلدی سیکھ لیتے ہیں۔

۲۳۔سماجی موثر رابطے:
 اپنے ساتھیوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات بنائیں۔ان سے مثبت عادتیں سیکھیں۔ان عادتوں کو اپنائیں۔بوقت ضرورت ان سے مدد حاصل کریں۔

۲۴۔اپنی صحت کا خیال رکھیں:
 مطالعہ میں گہرائی سے مصروف ہونے کے وجہ سے کبھی کبھی طلبہ اپنی صحت کا خیال نہیں رکھ پاتے ہیں یا اپنی صحت کی جانب سے لاپروا ہوجاتے ہیں۔امتحان میں بہترین کارکردگی اور بہتر نتائج کے لئے اپنی صحت کا خیال رکھیں۔

۲۵۔دیگر افراد کے تجربات سے بھی سیکھیں:
ہم اپنے اچھے اور برے تجربات سے تو سیکھتے ہی ہیں لیکن ہمیں دیگر افراد کے تجربات سے بھی سیکھنا چاہئے۔ہم ان کے ساتھ تبادلہ خیال کرسکتے ہیں۔
مطالعہ کو مؤثر بنانے کے لئے اور امتحان میں کامیاب ہونے کے لئے، ان مشوروں کو اپنی روٹین میں شامل کریں اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے کام کو انجام دیں۔مثبت سوچ،مثبت رجحانات رکھیں۔محنت کے ساتھ دعاؤں کا اہتمام کریں۔اللہ کے حضور جھک کر اپنی دنیا اور آخرت کی کامیاپی کی دعائیں منگیں۔ان شاء کامیابی ضرور حاصل ہوگی۔


.....🌹🌹🌹🌹🌹


عصر حاضر کے بچوں کے مسائل اور ان کا حل

تحریر: نکہت انجم ناظم الدین

عصر حاضر میں بچوں کی تربیت ایک پیچیدہ اور اہم موضوع بن چکی ہے۔ موجودہ دور کی تیز رفتار ترقی، ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا استعمال، اور معاشرتی تبدیلیوں نے بچوں کی زندگی میں نئے مسائل کو جنم دیا ہے۔ والدین اور اساتذہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ان مسائل کو سمجھیں اور ان کا مناسب حل تلاش کریں تاکہ بچوں کی شخصیت کو صحیح معنوں میں پروان چڑھایا جا سکے۔

بچوں کے مسائل:

ٹیکنالوجی کا حد سے زیادہ استعمال:

    موجودہ دور میں بچے کمپیوٹر، موبائل فونز، ٹیبلٹس اور ویڈیو گیمز میں گم ہو گئے ہیں۔ ان آلات کے غیر مناسب استعمال کی وجہ سے بچے جسمانی سرگرمیوں سے دور ہو رہے ہیں، جو ان کی صحت اور نشوونما پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔

تعلیمی دباؤ:
     بچوں پر تعلیمی دباؤ کی شدت بڑھ گئی ہے۔ زیادہ نمبرات کے حصول کی دوڑ میں بچے ذہنی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں، جس سے ان کی ذہنی صحت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔


معاشرتی تعلقات کی کمی:
  سوشل میڈیا اور دیگر آن لائن سرگرمیوں کی وجہ سے بچوں کے حقیقی زندگی کے معاشرتی تعلقات کمزور پڑ گئے ہیں۔ دوستوں اور خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کی بجائے بچے ورچوئل دنیا میں زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں۔

اخلاقی قدروں کا زوال:
   بچوں میں اخلاقی قدروں کا فقدان نظر آتا ہے۔ میڈیا اور انٹرنیٹ پر موجود مواد کی وجہ سے بچے صحیح اور غلط کی تمیز کھو بیٹھے ہیں۔

غذائی مسائل:
  جنک فوڈ اور غیر صحت بخش کھانوں کا زیادہ استعمال بچوں کی جسمانی صحت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ موٹاپا اور دیگر صحت کے مسائل عام ہو چکے ہیں۔

مسائل کا حل:

ٹیکنالوجی کا متوازن استعمال:
 والدین اور اساتذہ کو بچوں کے ٹیکنالوجی کے استعمال پر نظر رکھنی چاہیے اور ان کے لئے وقت کی حدود مقرر کرنی چاہیے۔ انہیں مختلف جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ترغیب دینی چاہیے، جیسے کہ کھیل کود، ورزش، اور دیگر دلچسپیوں میں مصروف کرنا۔

تعلیمی دباؤ کو کم کرنا:
  بچوں پر غیر ضروری تعلیمی دباؤ ڈالنے کی بجائے ان کی دلچسپیوں اور صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ اساتذہ اور سرپرستوں کو چاہیے کہ وہ بچوں کے سیکھنے کے عمل کو مزے دار اور دلچسپ بنائیں تاکہ وہ تعلیم کو بوجھ نہ سمجھیں۔

معاشرتی تعلقات کو مضبوط کرنا:
 والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کے حقیقی رشتے اور معاشرتی تعلقات کو فروغ دیں۔ انہیں دوستوں اور خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کے مواقع فراہم کریں اور سوشل میڈیا کے استعمال کو محدود کریں۔

اخلاقی تربیت:
 بچوں کو اخلاقی قدروں کی تعلیم دینا بہت ضروری ہے۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کو صحیح اور غلط کی تمیز سکھائیں اور انہیں اخلاقی کہانیوں اور عملی مثالوں کے ذریعے اخلاقی قدروں کی اہمیت سے آگاہ کریں۔

صحت مند غذائی عادات:
بچوں کو صحت بخش غذا کھانے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ جنک فوڈ کے استعمال کو محدود کریں اور انہیں گھر کے پکے ہوئے کھانے کی اہمیت بتائیں۔ والدین اور اساتذہ کو بچوں کے کھانے پینے کی عادات پر نظر رکھنی چاہیے اور انہیں صحت مند کھانوں کی طرف راغب کرنا چاہیے۔

عصر حاضر کے بچوں کے مسائل کو سمجھنا اور ان کا حل تلاش کرنا والدین اور اساتذہ کے لئے ایک اہم ذمہ داری ہے۔ بچوں کی صحت مند نشوونما اور شخصیت سازی کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان مسائل کا ادراک کریں اور ان کے مناسب حل تلاش کریں۔ اس سے نہ صرف بچوں کی زندگی بہتر ہوگی بلکہ معاشرہ بھی بہتر انداز میں پروان چڑھے گا۔


✒️✒️✒️✒️✒️.....


بچوں کے اسکرین ٹائم کو کم کرنے کے لئے کچھ تجاویز

تحریر: نکہت انجم ناظم الدین

آج کے دور میں ٹیکنالوجی کا استعمال انتہائی وسیع پیمانے پر ہورہا ہے اور بچے پچھلے وقتوں کی بہ نسبت زیادہ وقت اسکرین کے سامنے گزار رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ٹیکنالوجی تعلیمی اور تفریحی مواقع فراہم کر تی ہے لیکن اسکرین کا زیادہ استعمال بچوں کی جسمانی، ذہانتی، اور جذباتی صحت پر برے اثرات مرتب کرتا ہے۔والدین ، سرپرست اور نگراں کے لئے ضروری ہے کہ وہ بچوں میں صحتمندانہ عادات کو پروان چڑھائیں، بچوں کو اسکرین سے متعلق بھی صحت مند عادات بنانے میں اور متوازن زندگی گزارنے کے اصول مرتب کرنا بہت ضروری ہے۔بچوں میں اسکرین ٹائمنگ کو کم کرنے کے لئے کچھ مفید مشورے اور تجاویز مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔واضح حدود مقرر کریں:
بچوں کے اسکرین ٹائم کے استعمال کے بارے میں واضح اصول بنائیں۔ اور ان کا پابندی کے ساتھ استعمال اور اہتمام کریں۔اصولوں کی پیروی کریں۔روزانہ یا ہفتہ وار اسکرین ٹائمنگ کے استعمال کا حساب رکھیں اور ان حدود کو اپنے بچوں کو بھی بتائیں اور سمجھائیں۔

۲۔اپنی مثال کے ذریعے بچوں کو سکھائیں:
بچے عموما سرپرستوں اور افراد خانہ کے عمل سے سیکھتے ہیں۔ان کی پیروی کرتے ہیں۔ہم اپنے الٹرانک ڈیواسیز کو کتنا وقت دیتے ہیں؟ ہمیں اس بات کا بھرپور خیال رکھنا چاہئے۔ اور صحت مند اسکرین ٹائمنک کی عادات کو اپنانا چاہئے۔ہمیں اپنے گھر میں "اسکرین فری" اوقات مخصوص کرنا چاہئے۔ایسے اوقات جس میں تمام لوگ مل کر ساتھ بیٹھیں۔ایک دوسرے کے ساتھ اپنی باتیں،خیالات اور واقعات کو سانجھا کریں۔اس کی وجہ سے خاندانی تعامل اور بانڈنگ کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

۳۔بچوں کے لئے مختلف سرگرمیاں فراہم کریں:
بچوں کے لئے جلد نتائج دینے والی اور فائدہ مند سرگرمیوں کے مختلف وسائل فراہم کریں۔ ایسی سرگرمیاں جو آف لائن کی جا سکتی ہیں۔جن کو انجام دینے میں بچوں کو الکٹرانک ڈیوائسز کا استعمال نہ کرنا پڑے۔باہر کھیلنے کی بھرپور ترغیب دیں، تخلیقی اور ماہرانہ سرگرمیاں جیسے کہ تصویر بنانا ،کرافٹنگ، کتاب پڑھنا، بورڈ کے کھیل کھیلنا، یا کھیلوں اور جسمانی سرگرمیوں میں شرکت کرنا۔یہ سرگرمیاں بچوں کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں بہت مددگار ثابت ہوگی۔

۴۔سوشل میڈیا سے زیادہ حقیقی رشتوں سے میل جول بڑھائیں:
آج کل رشتے سوشل میڈیا پر زیادہ نبھائے جارہے ہیں اور حقیقی رشتوں سے سرپرست اور بچے سبھی دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ایسے میں ہمارے لئے بے حد ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو حقیقی رشتوں سے متعارف کروائیں۔ان سے میل جول بڑھائیں۔بچوں کو رشتوں کی اہمیت سمجھائیں۔اپنائیت کا احساس دلائیں۔حاصل ہونے والے مواقعوں پر انٹریکشن کو فروغ دیں اور خاندانی اور دوستانہ تعلقات کو معنی خیز بنائیں۔خاندان میں ہونے والی تقریبات میں شریک ہونے کی اپنے بچوں کو ترغیب دی جائے۔بچوں کے ساتھ بغیر کسی خلل کے کوالٹی ٹائم گزاریں۔ان تجاویز کے اختیار کرنے سے بچوں کا اسکرین ٹائم بھی بہت کم ہوجائے گا اور زندگی کی خوشگوار حقیقتوں اور رشتوں سے لطف اندوز ہوپائیں گے۔

۵۔ٹیکنالوجی فری زون بنائیں:
اپنے گھر میں کچھ حصے مخصوص کریں، جیسے کہ بیڈرومز یا ڈائنگ ہال، جہاں اسکرینز کا استعمال نہ ہو۔اس سے بچے اپنے کھانے پینے کے اوقات میں صرف کھانے پینے پر ہی فوکس کریں گے بنا کسی خلل کے اپنا کھانا صحتمند طریقے سے کھائیں گے۔ان کی نیند بھی بھرپور ہوگی۔صحت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ بچوں کی روزانہ کی ان صحتمندانہ روٹین کی وجہ سے وہ اپنے سبھی کام وقت پر کر پائیں گے۔

۶۔ دلچسپ اور مشغول رکھنے والے متبادل فراہم کریں:
اسکرین سے توجہ ہٹانے کے لئے ہم اپنے بچوں کو متعدد اور دلچسپ متبادل فراہم کرسکتے ہیں۔مثلا تعلیمی کھلونے، پزلز، دستکاری، ضائع اشیاء سے کارآمد اشیاء تیار کرنے والی چیزیں، مسئلہ حل کی صلاحیت، خیالاتی تجاویز کو مدد فراہم کرنے والی باتیں، کامکس،اور دیگر غیر نصابی سرگرمیاں جن میں بچوں کی دلچسپی کا سارا سامان موجود ہو۔ اپنے بچے کی دلچسپی اور استعداد کو سمجھ کر آپ اسے ان ساری سرگرمیوں میں مشغول رکھ سکتے ہیں۔

۷۔اسکرین پر بچوں کے لئے معیاری مواد کا انتخاب کریں۔

اسکرین پر بے شمار چیزیں دیکھنے اور پڑھنے کے لئے موجود ہیں۔جن میں کچھ بچوں کے اذہان پر مثبت تو کچھ بہت منفی اثر چھوڑ سکتی ہیں۔اسلئے ہمارے بچے اسکرین پر کیا دیکھ رہے ہیں؟اور اس سے کیا حاصل کررہے ہیں؟ اس کے بارے میں ہمیشہ فکرمند رہنا چاہئے اور یہ یقینی بنانا چاہئے کہ دیکھا جانے والا موادبچوں کی عمر کے مطابق، تعلیمی، اور مثبت ہو۔ سوشل میڈیا اور آن لائن سرگرمیوں کے اصول مقرر کریں کہ کونسی قسم کا مواد اور سرگرمیاں قابل قبول ہیں اور کون سی نہیں۔تحقیقاتی سوچ اور میڈیا لٹریسی کی صلاحیتوں کی تربیت دیں۔ اپنے بچے کو ڈیجیٹل شہریت، آن لائن تحفظ، اور ذمہ دارانہ اسکرین کے استعمال کے بارے میں مدد فراہم کریں۔

۸۔جسمانی سرگرمیاں انجام دینے کی ترغیب دیں:
روزانہ کی روٹین کا حصہ بنا کر بچوں کو ورزش اور جسمانی سرگرمیاں انجام دینے کی ترغیب دیں۔اسکرین ٹائم کو محدود کریں اور باہر کھیلے جانے والے کھیل جو حرکت اور جسمانی صحت میں اضافہ کرتے ہیں ایسے کھیلوں میں شرکت کرنے کی بھرپور ترغیب دیں۔اپنے بچوں کے ساتھ جسمانی سرگرمیوں میں شرکت کرنے کی عادت فروغ دیں۔

۹۔بچوں کو ماحول اور حالات سے مطابقت کرنا سکھائیں:

یہ تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ٹیکنالوجی معاشرتی زندگی کا حصہ ہے، اور اسکرین کے استعمالات کے فوائد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔آن لائن بہت سی اپلیکیشنز بہت فائدہ مند اور فعال بھی ہیں۔ان کا استعمال کرکے ہمارے بچے بہت سی نئی اور مشکل چیزوں اور تصورات سے استفادہ کرسکتے ہیں لیکن کوشش کریں کہ اسکرین ٹائم اور آف لائن سرگرمیوں کے درمیان ایک توازن بنایا جائے۔ بچے کو فری اور بہترین آن لائن ذرائع اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کی ترغیب دیں، جیسے کہ تعلیم مشاغل اور تصورات کی وضاحت، تخلیقیت، یا رابطہ کے لئے۔

۱۰۔نگرانی اور ایڈجسٹمنٹ:
اپنے بچوں کی روزانہ کی اسکرین ٹائمنگ اور عادات کا بار بار مشاہدہ کریں اور ضرورت کے مطابق اس میں ردوبدل کریں۔ ان کے اسکرین ٹائم کے اثرات کا جائزہ لیں، جیسے کہ بچوں کے رویے، مزاج، اور عمومی صحت پر اثرات۔اگر ان باتوں میں فرق محسوس ہو تو اس کے مطابق تبدیلیاں کریں۔ اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ سلوک روا رکھیں۔ان سے نرمی سے پیش آئیں۔انھیں زیادہ اسکرین ٹائمنگ کے نقصانات سے آگاہ کریں۔اسکرین ٹائمنگ کی حدود کا تعین کریں۔صحیح اور غلط کی تمیز کرنے میں اپنے بچوں کی مدد کریں۔
بچوں کے لئے اسکرین ٹائم کو کم کرنا ایک سرگرم و بہتر زندگی کی جانب رہنمائی کرنے والا عمل ہے۔جو بچوں کے ترقیاتی، جسمانی، اور ذہنی صلاحیتوں میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ واضح حدود قائم کرنا، مختلف سرگرمیاں فراہم کرنا، حقیقی رشتوں کو بڑھانا، اور صحت مندانہ عادات کو فروغ دینا سرپرستوں اور نگراں کی ذمہ داری ہے۔ اپنے بچوں اور افراد خانہ کے لئے متوازن زندگی کا انتخاب کریں۔جہاں ہم ٹکنالوجی سے فائدہ تو اٹھائیں لیکن حدود میں رہ کر۔جس سے نہ اخلاقیات متاثر ہو نہ ہماری اور ہمارے بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت۔


......🖊️🖊️🖊️🖊️🖊️


جرأت ہو نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے

تحریر: نکہت انجم ناظم الدین
انسانی زندگی نشیب و فراز سے بھری ہوتی ہے۔ زیست کبھی گہوارہ مسرت نظر آتی ہے تو کبھی یہاں رنج کے بادل چھائے نظر آتے ہیں۔ کبھی کامیابیوں کا جشن ہے تو کبھی ناکامیوں سے سامنا ہے ۔زندگی کے دو دن موافقت میں ہوتے ہیں تو دو دن مخالفت کی بھی ہوتے ہیں لیکن حالات کتنے ہی ناسازگار کیوں نہ ہو، مشکلیں چاہے کتنی ہی بڑی کیوں نا ہو ں، ہمارے بلند حوصلے اور مضبوط ارادوں کے آگے ان کی کوئی وقعت نہیں ہے ۔کہا جاتا ہے کہ انسانی قوت ارادی سے مضبوط کوئی چیز نہیں ہوتی ہے ۔زندگی میں کبھی ایسے حالات آجاتے ہیں جنھیں فیس کرنا ہمیں مشکل لگتا ہے تو ہم بہت پریشان ہوجاتے ہیں لیکن پریشانی تو حالات کا حل نہیں ہے ۔صحت مند جسم ،صحتمند دماغ دے کر اللہ نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے لیکن ہر شخص کو یہی لگتا ہے کہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ پریشان ہے۔ زمانے بھر کی تکالیف اور اذیتیں اسکا ہی مقدر ہیں۔اور یہی خیالات مایوسی اور ناامیدی کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ سورۃ الحجر کی آیت نمبر ۵۶ میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ" اور اپنے رب کی رحمت سے کوئی مایوس نہیں ہوتا سوائے گمراہ لوگوں کے "
اس لئے ہماری یہ سوچ بالکل غلط ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی کارہائے نمایاں انجام دے گئے ہیں اور آج بھی دے رہے ہیں جو بہت مجبور تھے ،بینائی سے محروم تھے، ہاتھ پیروں سے معذور تھے ،مختلف بیماریوں جسمانی و ذہنی تکلیف کا شکار تھے لیکن پھر بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنےأہنی عزم و حوصلے سے تاریخ میں اپنا نام سنہرے حرفوں میں اس طرح رقم کیا ہے کہ رہتی دنیا تک انھیں یادکیا جائے گا ۔بینائی سے محرومی جیسی مایوسی و ناامیدی کیا ہو سکتی ہے؟ لیکن اس کے باوجود ایک نابینا شخص لوئس بریل نے' بریل 'کی ایجاد کرکے اپنے جیسے کتنے ہی نابینا لوگوں کے تعلیمی سفر کو آسان کر دیا ۔ ایک نابینا شخص کی محنت نے لاکھوں نابینا افراد کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔' بریل ڈاٹ' کا استعمال کرکے ہیلن کیلر نے اپنی تحریروں سے دنیا کو حیران کر دیا۔ اگر انسان خود کچھ نہ کرنا چاہے تو حوصلہ دینے والے ہزار لفظ ،ہزاروں تقاریر بھی اسکے لئے کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم جب تک خود کچھ نا کرنا چاہیں کچھ بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ کامیابی اورناکامی زندگی کا حصہ ہے پوری زندگی نہیں ہے ۔اس لئے ناکامی سے دلبرداشتہ ہوکر بیٹھ جانے سے کیا ہوگا ؟ہمیں دوبارہ اپنی کمیوں پرکام کرنا چاہیے ۔مستقل مزاجی اور مستقل عمل ہمیں ضرور کامیابی سے ہمکنار کریں گے۔راہ میں رکاوٹیں آئیں گی، تکالیف بھی ہونگی، حوصلہ بھی پست ہوگالیکن اپنے اپنے عزم کے سورج کوازسرنو اگا کر ہم پھر سے آگے بڑھنے کا حوصلہ کریں تو ان شااءاللہ منزل ضرور ملے گی ۔ہاکنگ اسٹیفن کی کہانی سے ہم سبھی بخوبی واقف ہیں۔ برطانیہ میں پیدا ہونے والے اسٹیفن ہاکنگ کی زندگی کا آغاز ایک نارمل انسان کی طرح ہوا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ وہ 'موٹر نیوران ڈیزیز' میں مبتلا ہوگئے جو ایک لاعلاج مرض ہے ۔اس مرض میں انسان کے عضلات بیکار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایک ایک کرکے اسٹیفن کے عضلات نے کام کرنا بند کر دیا ۔ ان کی زبان نے بھی کام کرنا چھوڑدیا لیکن ایسے حالات میں بھی اسٹیفن نے ہار نہیں مانی اور معذوری کو شکست دے کر آگے بڑھنے کا حوصلہ کیا ۔کیمبرج یونیورسٹی کے ذریعے ان کی وہیل چیئر پر ایسا کمپیوٹر نصب کیا گیا جو اسٹیفن کے پلکوں کے ذریعے دیے گئے پیغام کو سمجھتا تھا ، اسے ترجمہ کرتا تھا ،الفاظ اسکرین پر آتے اور ان کا پیغام دوسروں تک پہنچ جاتا۔ اسی طرح اسٹیفن نے اپنی ڈگری مکمل کی، ریسرچ کی اور کئی کتابیں مکمل کیں۔ اسٹیفن نے کائنات کے بارے میں جو تحقیق اور دریافتیں کیں اس نے انہیں کائنات کے بہترین سائنسدانوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ انہیں آئن سٹائن کے بعد دوسرا بڑا سائنسدان تسلیم کیا گیا۔ انھیں دنیا کا ذہین ترین انسان بھی سمجھا جانے لگا اور امریکہ کے سب سے بڑے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
      اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر زمین پر بھیجا ہے اور اس کائنات میں ہزار ہا راز اللہ نے زمین کے سینے میں پوشیدہ رکھے ہیں۔ انسان اپنی عقل و دانائی سے پوشیدہ اسرار کو کھولنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔انھیں واکرکے انسانیت کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اور تاریخ میں امر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ نے انسان کو بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔انسان اسے بروئے کار لاتے ہوئے اپنے عزم و حوصلے سے وہ کام کر جاتا ہے جو بظاہر ناممکن نظر آتا ہے ۔ایرک ویہین مایر امریکہ میں پیدا ہوئے۔ایرک ایک نابینا مصنف،اتھلیٹ اور موٹیویشنل اسپیکر ہیں۔ بچپن کی شروعات میں وہ نظر کی کمزوری کا شکار تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی نظر نےپوری طرح ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ایرک نے نابینا افراد کے کیمپ میں رہ کر بہت کچھ سیکھا ۔2004 میں تبت کے چھ ناپینالڑکوں کے ساتھ مل کر شمال کی جانب سے 21500 فٹ ایوریسٹ سر کیا۔ نابینا افراد کے لیے یہ بہت بڑا ریکارڈ تھا لیکن ایرک نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ ایورسٹ کی چوٹیوں کو سر کرنا ہزاروں بینائی رکھنے والے افراد کے لیے آج بھی ایک نامکمل خواب کی حیثیت رکھتا ہے ۔لیکن ایرک نے نابینا ہونے کے باوجود نے ریکارڈ اپنے نام کیا ۔
زندگی انسان کے عزم ،ارادےاور حوصلے کا دوسرا روپ ہے۔اس کی بہترین مثال پاکستان کی' آئرن لیڈی' منیبہ مزاری ہیں جنہوں نے اپنی ہمت اور زندگی کو جینے کی خواہش سے یہ درس دیا ہے کہ زندگی کو اس وقت بھی نئے سرے سے شروع کیا جا سکتا ہے جب زندگی مکمل طور پر ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔ کسی شاعر کے لفظ ہیں جو منیبہ مزاری کی قوت ارادی اور زندگی جینے کی خواہش پر پورے اترتے ہیں کہ

تو آج قاتل ہے
پھر بھی راحتِ دل ہے
زہر کی ندی ہے تو
پھر بھی قیمتی ہے تو
پست حوصلے والے ساتھ کیا دیں گے
زندگی ادھر آجا ہم تجھے گزاریں گے

پاکستان اور دنیا کے بے شمار لوگوں کے لئے منیبہ مزاری آہنی عزم اور حوصلے کی ایک جیتی جاگتی مثال ہیں۔ اپنے وطن واپسی کے دوران منیبہ کی کار حادثے کا شکار ہوئی اور کھائی میں جاگری۔ اس حادثے کے بعد منیبہ ناصرف جسمانی طور پر بلکہ ذہنی طور پر بے شمار تکالیف سے گزریں۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی، جسم کے اندرونی اعضاء بھی ڈیمیج ہوگئے۔ انہوں نے تقریبا دو سال ہسپتال کے بیڈ پر گزارے۔پانچ بار أپریشن کے مراحل سے گزریں لیکن پھر بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ زندگی کے ساتھی نے زندگی بھر ساتھ چلنے سے انکار کر دیا ۔یہ دکھ کسی بھی عورت کی زندگی کا سب سے بڑا دکھ ہوتا ہے منیبہ کہتی ہیں کہ
 "زندگی میں ایسے بہت سے لمحات أتے ہیں جب آپ سوچتے ہیں کہ زندگی نے آپ کے ساتھ ناانصافی کی ہے لیکن پھر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کتنے خوش نصیب ہیں جتنا زیادہ آپ اندر سے ٹوٹتے ہیں اتنا ہی زیادہ آپ دل اور دماغ کا اعتبار سے مضبوط ہوتے جاتے ہیں۔ خوشیوں کا راز اس میں ہے کہ آپ شکر گزار رہیں کہ آپ کے پاس کیا کیا ہے نا کہ اس میں کہ آپ کے پاس کیا نہیں ہے اور آپ نے کیا کھویا ہے۔"
آج وہ اپنے مشکل ترین حالات سے جنگ جیت کر اپنی زندگی میں کامیاب ہیں۔ وہ ایک سوشل ورکر ،مصنفہ، آرٹسٹ، موٹیویشنل اسپیکر، ماڈل اور ٹی وی اینکر کا کردار بخوبی نبھا رہی ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ' برانڈ باڈی شاپ'کی برانڈ ایمبیسیڈر بھی ہیں۔منیبہ کا نام 'فور بزمیگزین' کی کم عمر اہم ترین شخصیات میں بھی شامل کیا گیا ہے۔
     ہمارے ملک کی بہادر بیٹی ارونیما سنہا نے اپنی زندگی کی شروعات وہاں سے کی جہاں سب کو لگا کہ ان کی زندگی اب ختم ہو گئی ہے ۔
لوگ جس حال میں مرنے کی دعا کرتے ہیں
میں نے اس حال میں جینے کی قسم کھائی ہے
امیر قزلباش

ارونیما دنیا کی پہلی لڑکی ہیں جنہوں نے ٹانگوں سے معذوری کے باوجود ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کا ریکارڈ بنایا ہے۔ ارونیما ایک محنتی لڑکی ہے ۔وہ لکھنو سے دہلی ایک جاب انٹرویو سے گھر لوٹ رہی تھیں کہ اس وقت کچھ بدمعاش لڑکے ان کے گلے سے چین چھیننے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکام ہونے کی صورت میں وہ انہیں ٹرین سے دھکا دیتے ہیں۔ ان کی بدقسمتی تھی کہ دوسرے ٹریک سے أنے والی ٹرین سے ٹکرا گئیں۔ دونوں ٹرینوں کے گزرنے کے بعد انہوں نے دیکھا ان کا ایک پاؤں ٹوٹ گیا ہے، ایک پیر بری طرح سے کچل گیا ہے۔ ایک پوری رات وہ وہاں پڑی رہیں ۔ساری رات پتھر ان کے پیروں میں چھبتے رہے اور چوہے ان کے پیروں کے نوچتے رہے۔ کئی ٹرینیں قریب سے گزرتی رہیں۔ غرض اس ایک رات وہ اپنی زندگی کے دردناک عذاب کو سہتی رہیں۔ صبح انھیں اسپتال پہنچایا گیا۔ ٹرین سے گرنے کے حادثے کو ان کا' اقدام خودکشی' مانا گیا۔ ارونیما کی ریڑھ کی ہڈی میں تین فریکچر تھے۔ ایک پیر میں راڈ اور ایک پیر پوری طرح سے مصنوعی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اس بہادر لڑکی نے ایورسٹ سر کرنے کی ٹھان لی اور اپنے عزم و استقلال سے ایورسٹ کو سر بھی کیا۔ اس مشکل سفر میں انہوں نے کیا کیا فیس کیا۔ہم صرف اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔اسے محسوس بھی نہیں کرسکتےہیں۔ کئی مثالیں ہیں جہاں لوگوں نے موت کے منہ سے واپس آکر اپنی نئی زندگی جی اور تاریخ رقم کی۔ تاریخ میں سنہرے لفظوں میں ان کا نام درج ہے اور جب کہیں کسی کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے تو ان ہی لوگوں داستان انہیں ہمت عطا کرتی ہے۔ مشکلات کا سامنا کرنے کا جذبہ دیتی ہے ۔
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ
جرأت ہو نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے
 اے مرد خدا ملک خدا تنگ نہیں ہے



.....📓📓📓📓📓



کتب بینی کے فوائد

تحریر: نکہت انجم ناظم الدین
پیارے بچو! ہم مذہب اسلام کے ماننے والے ہیں اور ہمارے لئے قرآن مجید کی سب سے پہلی وحی نازل ہوئی کہ
اقرا باسم ربک الذی خلق
ترجمہ۔ "پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا"۔
ہمیں اپنے رب کے ذریعے علم حاصل کرنے کی اور پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے اور زیادتی علم مطلوب رکھا گیا ہے۔ اللہ نے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادتی علم کی دعا کرنے کے لئے کہا ہے۔
ربی زدنی علما
ترجمہ۔ "یا رب میرے علم میں اضافہ کیجیے"۔
پڑھنا ہمارے لئے لازمی ہے۔موجودہ دورٹیکنالوجی اور اسکرینز کا دور ہے۔بچے بڑے سبھی ٹیکنالوجی کے اس سیلاب میں بہتے چلے جارہے ہیں۔ایسے میں بچوں میں کتب بینی کا شوق پیدا کرنا اور مطالعے کی عادت پیدا کرنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ آج بچے نصابی کتابیں تو پڑھتے ہیں لیکن دینی ،علمی و غیر نصابی کتابوں کا مطالعہ شاذو نادر ہی کرتے ہیں۔تمام معلوماتی کتابوں کا مطالعہ بہت اہم ہے۔ہمارے ارد گرد بے شمار عنوانات پر کتابیں لکھی گئی ہیں۔ان کتابوں کے مطالعے سے بچوں کی ذہنی، اخلاقی اور جذباتی نشوونما ہوتی ہے۔ اس مضمون میں ہم کتابیں مطالعے کے مختلف فوائد کو دیکھیں گے۔جو بچوں کی ہمہ جہت نشوونما وترقی اور کامیابی کے لیے ضروری ہیں۔کتابوں کا مطالعہ کرنے سے ہمیں مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوں گے۔ان شاء اللہ

۱۔علم میں اضافہ:
ہم جو بھی چیز پڑھتے ہیں وہ ہمارے علم میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ہم مختلف کتابوں سے مختلف نوعیت کی معلومات حاصل کرتے ہیں اور یہ بات طے ہے کہ حاصل شدہ معلومات ہمیں اپنی زندگی میں کہیں نہ کہیں ضرور کام آتی ہے۔ ہمارے پاس چیزوں سے متعلق جتنا زیادہ علم ہوگا، جتنے ہم باخبر ہوں گے، تعلیمی چیلنجز کو نمٹنے کے لیے اسی قدر تیار ہوں گے۔ہم سب کچھ کھو سکتے ہیں لیکن حاصل شدہ علم ہمارے ساتھ ہمیشہ رہتا ہے۔

۲۔ ذخیرۀ الفاظ میں اضافہ:
ہم جس قدر کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں نئے نئے لفظوں سے مانوس ہوتے جاتے ہیں۔جملوں کو پڑھ کر ہی مشکل الفاظ کے معنی اخذ کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ویسے احسن طریقہ یہ بھی ہے کہ ایسے نئے الفاظ اور تصورات جو ہمیں مشکل معلوم ہوتے ہیں انھیں سمجھنے کے لئے ہم لغت کی مدد لیں اور بروقت لفظ کا مطلب پتہ کر لیں یا کتاب کے حاشیے میں اسے نوٹ کرتے چلیں۔اس سے ہمارے ذخیرہ الفاظ میں قابل ذکر اضافہ ہوگا۔

۳۔تقریری صلاحیت میں اضافہ:
جو بچے مطالعہ کتب کے عادی ہو جاتے ہیں وہ زباندانی میں ماہر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پڑھتے ہوئے ان کے بولنے اور لکھنے کی صلاحیتوں میں بھی نکھار آجاتا ہے۔ وہ دیے گئے کسی بھی موضوع پر عمدگی کے ساتھ تقریر پیش کر سکتے ہیں ۔اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔صحیح تلفظ اور دقیق الفاظ کو اپنی تقاریر اور گفتگو میں استعمال کر سکتے ہیں۔

۴۔تحریری صلاحیت میں نکھار:
کتب بینی سے جس طرح ہمارے بولنے کی صلاحیت میں بتدریج نکھار آئے گا۔اسی طرح ہماری تحریر میں بھی نکھار آتا چلا جائے گا۔ راقم الحروف نے یہ طریقہ کمرۀ جماعت میں بھی اختیار کیا ہے۔مجھے اور میرے طلبہ کو جب بھی فری وقت ملتا ہے ہم بچوں کے رسائل ودیگر معلوماتی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ میرے طلبہ گھر جا کر بھی روزانہ کسی نہ کسی کتاب کا کوئی حصہ پڑھ کر آتے ہیں۔ہم اس حصے پر بحث کرتے ہیں اور اس کے بعد اگلے دن متعلقہ موضوع سے ملتا جلتا کوئی موضوع میں انہیں لکھنے کے لیے دیتی ہوں۔ ۸ ماہ کی مسلسل کاوشوں کے بعد مجھے اس کے بہترین نتائج حاصل ہوئے ہیں۔اخبارات میں بچوں کے صفحے میں فیچرز لکھنے کے لئے پہلے مجھے اپنے طلبہ کی مدد کرنی پڑتی تھی لیکن الحمدللہ اب وہ میری مدد کے بغیر بھی عمدگی سے مضامین لکھنے لگے ہیں۔آپ کے مطالعے کا معیار جتنا بلند ہوگا لکھنے کی صلاحیت بھی اسی قدر نکھرتی چلی جائے گی۔ آپ جن ادبا اور شعراء کو پسند کرتے ہیں ان کی تحریر کا بغور مطالعہ کریں تو آپ ان کی طرز کو سمجھ پائیں گے اور ان کے طرز پر عمدگی سے لکھ پائیں گے۔ پیارے بچو! کتابوں کے مطالعے سے آپ کی تحریر میں بلا شبہ نکھار آئے گا۔ان شاءاللہ آپ ایک بہترین مقرر ہی نہیں بلکہ بہترین قلم کار کے طور پر بھی منظر عام پر آئیں گے۔

۵۔یادداشت کی بہتری:
کتابوں کا مطالعہ یادداشت کو بہتر بناتا ہے۔ ہم جس کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں اس کا پس منظر، کردار ،واقعات، منظر نگاری، موجودہ واقعات وسانحات اور کتاب سے متعلق ساری معلومات ہماری یادداشت میں محفوظ ہو جاتی ہے۔

۶۔تجزیاتی و تنقیدی سوچ کا پروان چڑھنا:
روزانہ مطالعہ کرنے سے بچوں میں تجزیاتی و تنقیدی سوچ میں اضافہ ہوتا ہے۔وہ صحیح، غلط ،اچھا، برا تمام باتوں میں تمیز کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ بچے کسی واقعہ، کہانی، ناول کو پڑھتے ہوئے درمیان میں ہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی تجزیاتی سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔اسی طرح دینی موضوعات ،قومی مسائل اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والے واقعات وسانحات کے لیے ان کا اپنا ایک مضبوط نظریہ بن جاتا ہے اور وہ اپنی بات کو دلائل کے ساتھ پیش کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

۷۔ذہنی تناؤ کا خاتمہ:
ہم جب پریشان ہوتے ہیں ذہنی تناؤ میں ہوتے ہیں تو مطالعہ کتب سے کافی فائدہ ہوتا ہے۔ایک برطانوی تحقیق کے مطابق ذہنی طور پر پریشان افراد کو مطالعہ ،موسیقی اور ویڈیو گیمز جیسی سرگرمیوں میں مشغول کیا گیا تو ان میں مطالعہ کرنے والے افراد کا ذہنی تناؤ ۶۷ فیصد تک کم ریکارڈ کیا گیا۔اسی طرح محققین کے مطابق روزانہ ۲۰ منٹ تک کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تو ڈیمنشیا اور الزائمر جیسی بیماریوں کا خطرہ کسی حد تک کم ہوجاتا ہے۔

۸۔مقاصد کے حصول میں معاون:
ہمارے اردگرد کتنے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کے ساتھ بہت بڑے مسائل تھے لیکن انہوں نے اپنے تمام مسائل، ذاتی کمزوریوں اور معذوریوں کو شکست دے کر اپنی زندگی کے مقاصد کو حاصل کیا ہے۔ جب ہم مایوس ہو جاتے ہیں، تھک جاتے ہیں یا امتحان کا کوئی نتیجہ ہماری توقعات کے برعکس آجاتا ہے تو ہم ناامید ہونے لگتے ہیں۔ایسے میں اگر ہم ان افراد کی زندگی پر لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کریں جن کی پریشانیوں اور مسائل کا تناسب ہمارے پریشانیوں اور ناکامیوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھا تو ہمیں بے حد حوصلہ ملتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح وہ لوگ اپنی زندگی میں آنے والی روکاوٹوں کو عبور کر کے آگے بڑھ گئے۔اس سے ہمارے مقاصد کے حصول کے عزم کو بڑھاوا ملتا ہے۔ہم نئے سرے سے عزم کر لیتے ہیں کہ سارے مسائل کو ہرا کر اپنے مقصد کو ضرور حاصل کریں گے۔میں اپنے متعلق آپ کو بتاتی چلوں کہ ایک سال قبل میری صحت کے ساتھ کچھ مسائل ہو گئے تو میں خود کو کمزور محسوس کرنے لگی۔میری کارکردگی بھی متاثر ہونے لگی۔ایسے میں میرے مطالعے کی میز پر کتاب آئی، "ناممکن سے ممکن کا سفر"۔اس کتاب نے میرے ذہن میں سوچوں کے نئے در وا کر دیے۔ اس میں شامل ۵۰ لوگوں کی زندگی کی کہانیوں نے میری آنکھیں کھول دیں۔مجھے احساس ہوا کہ میرے مسئلے ان لوگوں کے مقابلے بے حد چھوٹے ہیں اور میں نئے حوصلے، نئی امنگ کے ساتھ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔پیارے بچو! عظیم لوگوں کی یہ کہانیاں ہمیں نئی راہیں دکھائیں گی، حوصلہ دیں گی اور ان شاءاللہ ہم اپنے اہداف تک ضرور پہنچ جائیں گے۔

۹۔پرسکون نیند:
تحقیق کے مطابق اگر سونے سے قبل ۲۰منٹ کسی اچھی سی کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو پرسکون نیند آتی ہے۔اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح دن میں اگر روزانہ ۱۵ منٹ کتب کا مطالعہ کیا جائے تو بچوں کے ذخیرۀ الفاظ میں فی سال ۱۰ لاکھ سے زائد الفاظ کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

۱۰۔قائدانہ صلاحیت:
 امریکی محکمۀ تعلیم کے ایک سروے کے مطابق مطالعہ کرنے والے بچوں میں اعتماد، یادداشت اور قائدانہ صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔وہ کتابوں سے حاصل کیے گئے علم اور عظیم لوگوں کی مثالوں کے ذریعے سیکھتے ہیں۔ان کی فیصلہ لینے کی قوت بھی بہت مضبوط ہوجاتی ہے۔

۱۱۔ جذباتی ذہانت میں اضافہ
مستقل مزاجی کے ساتھ مطالعہ کرنے سے طلبہ کی جذباتی ذہانت میں اضافہ ہوتا ہے۔وہ صحیح غلط میں فرق کر سکتے ہیں۔ضبط نفس کی خوبی ان میں آجاتی ہے اور وہ اپنے جذبات پر کنٹرول رکھنا سیکھ جاتے ہیں۔

۱۲۔ذہنی اور اخلاقی تربیت میں معاون:
کتابوں میں دی گئی اچھی باتوں پر عمل پیرا ہو کر ہم اچھے انسان بن سکتے ہیں۔اخلاقی تربیت میں معاون باتوں کو پڑھ کر اخلاق سنوار سکتے ہیں۔انبیاء کرام ،صحابہ کرام، سلف صالحین کے قصے اور واقعات کا مطالعہ کر کے ہماری ذہنی و اخلاقی تربیت عمدگی کے ساتھ ہو سکتی ہے۔

۱۳۔خود شناسی:
ہم عظیم شخصیات سے متعلق کتابیں پڑھتے ہیں تو اپنی خوبیوں کو بھی پہچاننے لگ جاتے ہیں۔ ان پر کام کر کے ہم خود بھی ایک عظیم انسان بن سکتے ہیں۔ہمیں اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کا احساس ہوتا ہے۔اور ہم اپنی ان خوبیوں اور صلاحیتوں کو پالش کر سکتے ہیں۔ اس پر مزید کام کر سکتے ہیں۔ اس پر کام کر کے متعلقہ فیلڈ میں بہترین کارکردگی انجام دے سکتے ہیں۔

۱۴۔حافظے میں بہتری:
مطالعہ کتب ہمارے حافظے میں بہتری کا سبب بنتا ہے۔کتابوں میں دی گئی معلومات یاد رکھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ہم ترتیب وار واقعات اور معلومات کو یاد رکھ سکتے ہیں غور و فکر کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی کئی قابل ذکر فوائد کتابیں پڑھنے سے حاصل ہوسکتے ہیں۔جیسے توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔علم میں اضافہ ومعلوماتی ترقی ہوتی ہے۔وقت کا بہترین استعمال ہوتا ہے۔دیگر افراد کے تجربات سے سیکھا جاسکتا ہے۔ذہن ودماغ کو نئی قوت ملتی ہے۔نقطۀ نظر وسیع ہوتا ہے۔سماجی تعلقات میں بہتری آسکتی ہے۔ہم خود کو بہتر انسان میں تبدیل کرسکتے ہیں۔فضول اور لغو باتوں سے ہم دوری اختیار کرتے ہیں۔تخلیقی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔نیکی کی ترغیب ملتی ہے۔خود اعتمادی میں بھرپور اضافہ ہوتا ہے۔غرض مطالعۀ کتب سے ہمیں لامحدود فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
بچو! آپ پڑھیں ،لکھیں اور اپنے والدین، اساتذہ اور ملک کا نام روشن کریں۔اللہ آپ کو ملت وقوم کا کارآمد فرد بنائے یہی آپ کے لئے دلی دعائیں ہیں۔آمین



.....⏰⏰⏰⏰⏰


گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

تحریر: نکہت انجم ناظم الدین

پیارے بچو! آپ جانتے ہی ہیں کہ وقت کا ہماری زندگی میں کتنا اہم کردار ہوتا ہےاگر ہم اس کا صحیح استعمال کرتے ہیں تویہ کامیابی کی شکل میں ہمارے لئے سوغات چھوڑ جاتا ہے اور اگر غلط کاموں میں صرف کرتے ہیں یا اسے یونہی گنواتے ہیں تو پیچھے صرف پچھتاوا چھوڑ جاتا ہے۔کہا جاتا ہے نا کہ وقت کا پہیہ شب و روز برق رفتاری سےگھومتا ہی جاتا ہے دن ہفتوں میں،ہفتے مہینوں میں اور مہینے سال میں تبدیل ہوئے جا رہے ہیں۔ کبھی یہ بادلوں کی طرح گزرتا ہے اور کبھی ہواؤں کی طرح اڑتا ہی چلا جاتا ہے۔ کبھی غبار کی طرح اڑ کر ختم ہو جاتا ہے تو کبھی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ وقت کی سب سے بڑی خصوصیت برق رفتاری ہے اج کے دور میں وقت کا صحیح استعمال کرنا دو متضاد صورتوں میں ہو گیا ہے یہ اسان بھی ہے اور مشکل بھی ہے کیونکہ اج کا دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ٹیکنالوجی نے جہاں ہماری زندگی کو بہت اسان کر دیا ہے وہیں اس کے بے جا استعمال نے ہماری زندگی اجیرن بھی کر دی ہے۔ٹکنالوجی کے ان وسائل میں موبائل فونز،کمپیوٹراور ٹیلی ویژن وغیرہ شامل ہیں۔ ہم موبائل فونز اور کمپیوٹر کے ذریعے گوگل اور چیٹ جی پی ٹی جیسی اشیا کا صحیح استعمال کریں تو کیا ہی اچھا ہو یہ ٹکنالوجی کا بھی صحیح استعمال ہوگا، ہمارے وقت کا بھی صحیح استعمال ہوگا اور ہمیں اس کے ذریعے مفید معلومات بھی حاصل ہوگی۔اوراگر ہم ان تمام وسائل کا غلط استعمال کرتے ہیں مثلا گوگل پر غلط چیزیں سرچ کرتے ہیں،چیٹ جی پی ٹی کا غلط استعمال کرتے ہیں،ٹیلی ویژن پر ہر وقت کارٹونز اور ویڈیو گیمز چلاتے ہیں تو یہ ہم ٹکنالوجی کا تو غلط استعمال کر ہی رہے ہیں لیکن سب سے اہم چیز ان غیر ضروری سرگرمیوں میں ہمارا قیمتی وقت بھی برباد ہو رہا ہے۔پیارے بچو! ابھی اپ ایک طالب علم ہیں اور یہ عمر اپ کے سیکھنے کی بہترین عمر ہے۔ وقت کا صحیح استعمال کر کے اپ اپنے خوابوں کے تعبیر کو پا سکتے ہیں۔ہر بچہ اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ بننے کا خواب ضرور دیکھتا ہے۔بچے کے اس خواب اور مقصد کے حصول میں سرپرست اور اساتذہ بھی اس کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔وہ اسے اس کے مقصد کے حصول میں رہنمائی بھی کرتے ہیں اور بھرپور مدد بھی کرتے ہیں۔جب ہم مقصد کا تعین کر چکے ہوں تو منزل کی طرف بڑھنے کے لیے سب سے پہلی شرط کڑی محنت ہے۔ہمیں دن بھر میں اپنے اوقات کو منقسم کر کے ٹائم ٹیبل بنا لینا چاہیے۔جاگنے کے بعد سے سونے تک اگر ہم مناسب طریقے سے تقسیم الاقات بناتے ہیں تو ان شاءاللہ زندگی بہت منظم طریقے سے گزرے گی اور ہم لمحہ بہ لمحہ منزل کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے۔ جب ہم منظم طریقے سے اپنے وقت کا استعمال کرتے ہیں تو سارے کام خود بخود صحیح ہوتے چلے جاتے ہیں۔وقت پر اسکول جانا،وقت پرواپس انا،مدرسہ،ٹیوشن، کھیل کود،ہوم ورک اور نمازیں سب کچھ ان شاءاللہ بالترتیب ہوگا۔وقت ضائع کرنے کا دکھ بھی نہیں رہے گا۔اپ روزانہ کوئی ایک کرییٹو سرگرمی انجام دے سکتے ہیں۔نئی معلومات حاصل کر سکتے ہیں،روزنامچہ لکھ سکتے ہیں، مختلف واقعات کو تحریر میں ڈھال کر چھوٹی چھوٹی کہانیاں بنا سکتے ہیں اور اردو ادب سے اپنا تخلیقی رشتہ قائم کر سکتے ہیں۔ اگر اپ کی دلچسپی ڈرائنگ،پینٹنگ اور خوشخطی میں ہے تو أپ اس کے دلکش نمونے بھی بنا سکتے ہیں۔غرض اپنا ہر دن تخلیقی صلاحیتوں میں استعمال کر کے تخلیقی کام انجام دےسکتے ہیں۔ ہم نے ہر حال میں اپنا وقت تعمیری کاموں میں صرف کرنا چاہیے۔ وقت کے ضیاع سے بچنا چاہیے۔اہل ایمان ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنا وقت اللہ کی راہ میں دیں۔اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے استعمال کریں۔ہمارے اسلاف وقت کاصحیح استعمال کر کے کامیاب ہوئے دین اور دنیا میں سرخرو ہوئے انہوں نے اپنے مثبت افعال سے فلاح پائی۔حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
 "میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو حرص در ہم و دینار سے زیادہ اپنے اوقات کے حریص تھے۔"
 سچ ہے انفرادی و اجتماعی حیثیت میں انسان کا قیمتی سرمایہ وقت ہے اور وقت کا صحیح اور غلط استعمال ہماری انے والی زندگی میں کامیابی یا ناکامی کی دلیل ہے۔ایک حکیم صاحب لکھتے ہیں کہ
"جس نے اپنی عمر کا کوئی دن اس حال میں گزارا کہ نہ تو کسی حق کا فیصلہ کیا ،نہ کوئی فرض ادا کیا، نہ مجد و مشرف کی بنیاد رکھی، نہ کوئی قابل تحسین کام کیا اور نہ کوئی علم حاصل کیا تو اس نے اپنے اس دن کے ساتھ بدسلوکی کی اور اپنے اوپر ظلم کیا"۔

اسی طرح علامہ یوسف القرضاوی اپنی ترجمہ شدہ تصنیف وقت کی اہمیت میں لکھتے ہیں کہ
"بلاشبہ گردش لیل و نہار میں بڑا سامان عبرت ہے اس لیے مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان چیزوں سے عبرت حاصل کرےاور غورو فکر سے کام لے ہر دن جو گزرتا ہے بلکہ ہر گزرنے والے لمحے میں اس کائنات اور انسان کی زندگی کے اندر کوئی نہ کوئی حادثہ ضرور رونما ہوتا ہے۔ان میں کچھ نظر آتے ہیں اور کچھ نہیں۔کچھ کا علم ہوتا ہے اور کچھ کا نہیں ہوتا۔کتنی زمینیں زندہ ہوتی ہیں اور کتنے دانے اگتے ہیں،کتنے پھول بار آور ہوتے ہیں، اسی طرح گردش ارض و سماکے ساتھ ساتھ لوگوں کے احوال میں بھی تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں"۔
پیارے بچو!ائیے ہم عہد کریں کہ ہم بھی اپنے وقت کا صحیح استعمال کریں۔علم نافع کے حصول کے لیے کریں۔عمل صالح کریں۔ بندگان خدا کی فلاح و بہبود کے کام کریں۔ مجاہدہ نفس کریں۔اپنی کمیوں پر کام کرکے انہیں دورکریں۔اللہ کی رضا کے مطابق خود کو ڈھال کر کریں۔وقت کو ہم خیر کے کاموں کے لئے استعمال کریں، نئے گول سیٹ کریں۔انسانیت کا سر بلند ہو ایسے کام کریں۔ وطن عزیز کو ترقی یافتہ ممالک کے صف میں کھڑا کرنے کے لیے اپنا ہاتھ بٹائیں۔ملک کے کارامد شہری بن جائیں۔ یہ سب اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ہم وقت کی اہمیت کو سمجھیں۔وقت کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔وقت کو تعمیری کاموں میں صرف کر کے اپنے خوابوں کے جگنؤں کو مٹھی میں قید کر لیں کیونکہ جو لوگ وقت کا صحیح استعمال نہیں کرتے ہیں وقت گنواتے ہیں ان کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں اور وہ بعد میں سوچتے ہیں کہ کاش بچپن اور لڑکپن کا وقت دوبارہ واپس ا جائے لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے کیونکہ گیا ہوا وقت دوبارہ لوٹ کر نہیں أتا ہے۔


......📋🖊️📋🖊️📋🖊️


بچے کہانی ایسے لکھیں

تحریر: نکہت انجم ناظم الدین

کہانیاں انسان کی زندگی کا ایک لازمی اور حسین حصہ ہوتی ہیں۔ ہر انسان کے پاس کہانیاں سننے اور سنانے کا ایک منفرد انداز ہوتا ہے اسی طرح کہانی لکھنا ایک ایسا فن ہے جو نہ صرف ذہانت کو جِلا بخشتا ہے بلکہ تخلیقی صلاحیتوں کو بھی نکھارتا ہے۔ بچوں کے لئے کہانی لکھنے کی عادت پیدا کرنا ایک مثبت عمل ہے۔جس کی وجہ سے وہ اپنی سوچ کو بہتر انداز میں پیش کرسکتے ہیں، جذبات کو الفاظ میں ڈھال سکتے ہیں اور تخیل کو حقیقت سے جوڑ سکتے ہیں۔پیارے بچو! اگر آپ بھی کہانی لکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ کہاں سے شروع کریں؟ تو پریشان نہ ہوں۔ اس مضمون میں ہم بالترتیب نکات کی مدد سے سمجھیں گے کہ کہانی کیسے لکھی جاتی ہے؟ کون سے عناصر اسے دلچسپ بناتے ہیں؟ اور کس طرح آپ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بہتر بنا سکتے ہیں؟ تو آئیے پہلا مرحلہ دیکھتے ہیں۔
1.ایک منفرد اور دلچسپ خیال:
کہانی لکھنے کے لیے سب سے اہم چیز ایک منفرد اور دلچسپ خیال ہوتا ہے۔ یہ خیال آپ کو کہیں بھی اور کسی بھی وقت آسکتا ہے۔ کچھ طریقے جن سے آپ بہترین کہانی کا خیال حاصل کر سکتے ہیں۔اپنی روزمرہ کی زندگی سے خیال لینا۔کبھی کبھی ہماری اپنی زندگی میں ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو کہانی لکھنے کے لیے بہترین مواد فراہم کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اسکول میں ہونے والا کوئی یادگار واقعہ۔دوستوں کے ساتھ کوئی مہم جوئی۔نانی اماں، دادی اماں سے سنی ہوئی کوئی پرانی کہانی۔یا کسی خاص موقع پر ہونے والا کوئی منفرد تجربہ۔اسی طرح کبھی کسی موقع پر اچانک ہمارے دماغ میں کوئی آئیڈیا آجاتا ہے اور ہم اس سے بھی کوئی کہانی بن لیتے ہیں۔میں اپنے کمرۀ جماعت میں اپنے طلبہ کی کہانی لکھنے میں اس طرح رہنمائی کرتی ہوں کہ ان کے ساتھ کچھ آئڈیاز یا مرکزی خیال شیئر کرتی ہوں اور ان سے کہتی ہوں وہ اپنی سمجھ کے مطابق اسے کہانی میں ڈھالیں۔کچھ مہینوں کی مسلسل مشق کے بعد میرے طلبہ اچھی کہانیاں لکھنے لگے ہیں۔
2."کیا ہو اگر؟" خود سے یہ سوال کرنا:
یہ طریقہ بہت کارآمد ہے کیونکہ یہ تخیل کے دروازے کھول دیتا ہے۔ آپ خود سے مندرجہ ذیل سوالات کرسکتے ہیں۔کیا ہو اگر جانور انسانوں کی زبان سمجھنے لگیں؟کیا ہو اگر میں ایک دن کے لیے جادوگر بن جاؤں؟کیا ہو اگر میں وقت میں سفر کر سکوں؟کیا ہو اگر پھل بات کرنے لگیں؟ پھول اپنی زبانی اپنی آپ بیتی بیان کرنے لگیں وغیرہ۔ آپ کے یہ خیالات کہانی کو منفرد اور دلچسپ بنا سکتے ہیں۔اس طرح کی کہانیوں کا آئیڈیا ہمیں ہماری درسی کتابوں میں شامل کہانیوں سے بھی ملتا ہے۔ریاست مہاراشٹر میں بال بھارتی کی ششم جماعت کی مراٹھی کی درسی کتاب میں ایک کہانی ہے، "بھانڈن چون چے"۔بہت دلچسپ کہانی ہے۔جس میں مصنف نے ذائقوں کو آپس میں بحث کرتے دکھایا ہے۔ ہر ذائقہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہی سب سے بہتر ہے۔ہم اس طرح کی کئی دلچسپ کہانیاں تحریر کرکے قارئین کو محظوظ کرسکتے ہیں۔
3.خوابوں سے متاثر ہونا:
بہت سی مشہور کہانیاں مصنفین کے خوابوں سے متاثر ہو کر لکھی گئیں۔ اگر آپ کو کوئی حیرت انگیز خواب آتا ہے تو اسے فوراً لکھ لیں۔ شاید وہی آپ کی کہانی کا بہترین موضوع بن جائے۔ہمارے تصورات میں موجود باتوں اور آئیڈیاز کو بھی ہم لکھ سکتے ہیں۔اس سے پڑھنے والے آپ کے تخیل کی گہرائی سے واقف ہوں گے۔
4.کتابوں، فلموں اور تاریخ سے تحریک لینا:
بہت سی کہانیاں تاریخ کے حقیقی واقعات سے متاثر ہو کر لکھی جاتی ہیں۔ اسی طرح کوئی فلم یا کتاب بھی آپ کو ایک نئے خیال کی طرف لے جا سکتی ہے۔موجودہ دور میں ہمارے اردگرد موجود عظیم اشخاص، تاریخ کی عظیم شخصیات ہم ان کے کاناموں کو بھی قرطاس پر اتار سکتے ہیں۔ہمارے ضلع، ریاست، ملک اور دنیا میں اہم کارہائے نمایاں انجام دینے والے افراد کو بھی ہم اپنی کہانی کا موضوع بناسکتے ہیں۔ان کی جدوجہد، مشکلات اور حالات زندگی اوروں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
5. کہانی کے کردار کیسے بنائیں؟
کہانی کے کردار وہ ستون ہوتے ہیں جن پر پوری کہانی کھڑی ہوتی ہے۔ اگر کردار دلچسپ ہوں تو کہانی خودبخود متاثرکن بن جاتی ہے۔ کہانی کے کرداروں کو بنانے کے لیے درج ذیل نکات پر غور کریں۔
الف) کردار کی شناخت:
ہر کردار کا ایک منفرد نام، شخصیت، اور پس منظر ہونا چاہیے۔ کردار کی شناخت بنانے کے لیے ان سوالوں کے جوابات دیں۔اس کا نام کیا ہے؟ اس کی عمر کتنی ہے؟ وہ کہاں رہتا ہے؟ اس کے پسندیدہ مشاغل کیا ہیں؟ اس کی سب سے بڑی خوبی اور سب سے بڑی کمزوری کیا ہے؟وغیرہ۔
ب)کرداروں کی قسمیں:
ہر کہانی میں مختلف قسم کے کردار ہوتے ہیں مثلا،
1. ہیرو۔یہ کہانی کا مرکزی کردار ہوتا ہے جو مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔کہانی مکمل طور پر اس کے ارد گرد گھومتی ہے۔
2. ولن۔ یہ کہانی کا منفی کردار ہوتا ہے جو رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔اس کردار کے کام اس طرح کے ہوتے ہیں کہ قارئیناسے ناپسند کرتے ہیں اور اس کے برے کارنامے کی وجہ سے ہیرو کو مزید سپورٹ کرتے ہیں۔
3. مددگار کردار۔یہ وہ کردار ہوتے ہیں جو ہیرو کی مدد کرتے ہیں۔
4. مزاحیہ کردار۔یہ وہ کردار ہوتے ہیں جو کہانی میں ہلکا پھلکا مزاح پیدا کرتے ہیں۔
ج) کرداروں کے جذبات اور مکالمے:
ایک اچھا کردار وہی ہوتا ہے جو حقیقی لگے۔ اس کے مکالمے اور جذبات حقیقی زندگی سے ملتے جلتے ہونے چاہئیں جیسے:"مجھے یقین نہیں آ رہا کہ میں نے یہ کر دکھایا!" احمد نے خوشی سے کہا۔ "یہ سب میری غلطی تھی، مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔" سارہ نے افسوس سے سر جھکا لیا۔
6. کہانی کا ماحول کیسے بنائیں؟
کہانی کا ماحول وہ جگہ اور وقت ہوتا ہے جہاں کہانی رونما ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی قسم کا ہوسکتا ہے جیسے،ایک جنگل،کسی اسکول کی پراسرار عمارت، مستقبل کا کوئی حیرت انگیز شہر
کوئی قدیم تاریخی مقام، کھیل کا میدان، کمرۀ امتحان اور باغ وغیرہ۔
7.ماحول کی تفصیل دینا ضروری کیوں ہے؟
اگر آپ کا ماحول جاندار ہوگا تو قاری خود کو اس کہانی میں محسوس کرے گا۔ ماحول کی تفصیلات لکھتے وقت درج ذیل نکات پر توجہ دیں۔جگہ کا رنگ و روپ کیسا ہے؟ وہاں کی خوشبو کیسی ہے؟
وہاں کون سی آوازیں سنائی دیتی ہیں؟مثلاً، "باغ میں خوبصورت پھول کھلے ہوئے جن پر رنگ برنگی تتلیاں منڈلارہی تھیں، "گھر کا دروازہ پرانی لکڑی کا تھا، جس پر دراڑیں پڑ چکی تھیں۔ باہر ایک پرانا لالٹین جھول رہا تھا، جو ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ چرچراتا تھا" ،کھیل کا میدان تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا۔سب کشتی شروع ہونے کے لئے بے چین تھے"۔وغیرہ

8. کہانی کا پلاٹ کیسے ترتیب دیں؟
کہانی کی ایک مخصوص ترتیب ہوتی ہے جو اس کو جاندار بناتی ہے۔
الف)کہانی کا آغاز :
یہ وہ حصہ ہوتا ہے جہاں قاری کو کہانی کے کرداروں اور ماحول سے متعارف کرایا جاتا ہے۔
ب) مسئلہ:
یہ وہ چیلنج یا مسئلہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے کہانی آگے بڑھتی ہے۔
ج) عروج :
یہ کہانی کا سب سے سنسنی خیز حصہ ہوتا ہے، جہاں سب سے بڑی مشکل سامنے آتی ہے۔
د) حل اور اختتام:
یہ وہ حصہ ہوتا ہے جہاں کہانی کا مسئلہ حل ہوتا ہے اور سب کچھ واضح ہو جاتا ہے۔

9. کہانی کو مزید دلچسپ کیسے بنائیں؟
پراسراریت اور تجسس پیدا کریں۔کرداروں کے درمیان ہونے والے جاندار مکالمے لکھیں۔متاثر کن الفاظ کا انتخاب کریں۔کہانی کو غیر متوقع موڑ دیں۔اگر کہانی مشہور شخصیات سے متعلق ہے جن کی جدوجہد اور مسلسل محنت نے ان کی زندگی بدل دی تو اس کہانی میں قارئین کی حوصلہ افزائی کرنے والے جملے استعمال کریں۔آپ کی کہانی کا مثبت تاثر قارئین کے ذہنوں پر قائم ہوگا۔
10. کہانی پر نظر ثانی:
جب کہانی مکمل ہو جائے تو اسے دوبارہ غور سے پڑھیں۔اور دیکھیں کہ کیا کہانی میں روانی ہے؟کیا جملے درست اور مربوط ہیں؟کہیں کوئی غلطی تو نہیں؟کہانی لکھنا بچوں کے لیے انتہائی دلچسپ عمل ہے۔ اس سے نہ صرف ان کی تخلیقی صلاحیتیں بڑھتی ہیں بلکہ ان کی سوچ کو بھی نیا زاویہ ملتا ہے۔پیارے بچو! اگر آپ بھی کہانی لکھنا چاہتے ہیں تو بس اپنی پسندیدہ قلم اور اپنی پسندیدہ ڈائری اٹھائیں اور اپنے خیالات کو الفاظ کی شکل دیں۔شروعات میں بہت سی غلطیاں ہوسکتی ہیں، کہانیاں پرفیکٹ اور منطقی نہیں بھی ہوسکتی ہیں لیکن لکھنے کی مشق کرتے رہنے سے آپ کو لفظوں، تصورات، خیالات اور کرداروں پر عبور حاصل ہوگا اور پھر وہ دن دور نہیں ہوگا کہ آپ کی کہانی ایک دن ضرور کسی کی پسندیدہ کہانی بن جائے گی ان شاء اللہ۔

 
Design by Wordpress Theme | Bloggerized by Free Blogger Templates