*وِکسِت




 بھارت بِلڈاتَھون 2025: نئی نسل کے طلبہ کی اختراعی پہچان

✍️ رپورٹ: رضوی سلیم شہزاد، مالیگاؤں 

موبائل: 9130142313 


وزارتِ تعلیم، حکومتِ ہند نے نیتی آیوگ کے "اٹل انوویشن مشن" کے اشتراک سے “وِکسِت بھارت بلڈاتھون 2025” کا آغاز کیا ہے۔ یہ ملک گیر تحریک اسکولی طلبہ میں اختراع، تخلیقی سوچ اور عملی تعلیم کو فروغ دینے کے مقصد سے شروع کی گئی ہے۔ یہ بھارت کی اب تک کی سب سے بڑی طلبہ اختراعی مہم ہے جس میں ششم جماعت سے دوازدہم (بارہویں) جماعت تک کے طلبہ شریک ہو سکتے ہیں۔ یہ پروگرام حکومتِ ہند کے وکست بھارت @2047 کے وژن کی سمت ایک مضبوط قدم سمجھا جا رہا ہے۔

بھارت سرکار منسٹری آف ایجوکیشن کی ویب سائٹ کے مطابق بلڈاتھون کے تحت چھٹی سے بارہویں جماعت تک کے 5 سے 7 طلبہ کا گروپ اپنے اساتذہ کی رہنمائی میں اپنی ٹیمیں بنا کر حقیقی زندگی کے مسائل کے حل کے لیے آئیڈیاز اور ماڈلز تیار کریں گے۔ ایک اسکول سے ایک سے زائد ٹیمیں رجسٹر کی جاسکتی ہیں۔ ماہرین کی قومی کمیٹی ان اندراجات کا جائزہ لے گی۔ جب کہ نمایاں کارکردگی دکھانے والی ٹیموں کو انعامات، رہنمائی اور کارپوریٹ شراکت داری کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔


*اس اختراعی مہم کے لیے چار قومی موضوعات*

اس مہم میں ششم سے دوازدہم تک کی جماعتوں کے طلبہ چار اہم موضوعات پر اپنی تخلیقی صلاحیتیں پیش کرسکتے ہیں جن میں پہلا موضوع "آتم نربھر بھارت" ہے جس کے تحت خود کفیل نظام اور حل تیار کرنا ہوگا۔ دوسرا موضوع "سودیشی" قرار دیا گیا ہے جس کے تحت مقامی نظریات اور اختراعات، معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے۔ جبکہ تیسرے عنوان کے تحت "ووکل فار لوکل" کے ذریعہ مقامی مصنوعات اور دستکاری کی حمایت کو شامل کیا گیا۔ اسی طرح چوتھے موضوع کا نام "سمردھی" دیا گیا ہے جس کے ذریعہ خوشحالی اور پائیدار ترقی کے راستے تلاش کرنا شامل ہیں۔ یہ چاروں موضوعات دراصل اُس خود انحصار، اختراعی (تخلیقی) اور مضبوط ہندوستان کی بنیاد ہیں جس کا خواب مشن 2047 کے لیے دیکھا گیا ہے۔


*تعلیم سے آگے، تجربے کی دنیا تک*

منسڑی آف ایجوکیشن، حکومتِ ہند کی ویب سائٹ کے مطابق بلڈاتھون محض ایک مقابلہ نہیں بلکہ سیکھنے اور مشق کرنے کا ایک عملی تجربہ ہے۔

اس کے ذریعے طلبہ قومی تعلیمی پالیسی 2020ء کے اصولوں کے مطابق عملی اور تجرباتی تعلیم حاصل کریں گے۔ یہ ان طلبہ کے اندر سوال پوچھنے، سوچنے، بنانے اور پیش کرنے کی عادت پیدا کرے گا۔

یہ مہم خاص طور پر قبائلی، پسماندہ اور دور دراز اضلاع کے اسکولوں کو بھی شامل کرتی ہے تاکہ ہر بچے کو اپنی ذہانت دکھانے کا برابر موقع مل سکے۔ مستقبل میں اختراع کا یہ سفر شہروں سے دیہات تک اور اسکولوں سے قوم کے مستقبل تک پھیلنے والا ہے۔ وِکست بھارت بلڈاتھون نامی اس مہم کا آغاز 23 ستمبر 2025ء سے کیا گیا ہے۔ اسکولوں کو آن لائن رجسٹریشن کے لیے 23 ستمبر تا 6 اکتوبر تک کا موقع دیا گیا تھا جسے ضرورت کے مطابق آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ جبکہ طلبہ کے لیے تیاری کی سرگرمیوں کی تکمیل کے لیے 6 تا 12 اکتوبر 2025ء تک کا وقت دیا گیا ہے۔ 13 اکتوبر ملک گیر لائیو بلڈاتھون، 14 تا 31 اکتوبر اندراجات جمع کرانا، نومبر میں ملک بھر سے جمع ہونے والے طلبہ کے پراجیکٹس کی جانچ کرنا اور دسمبر میں فاتحین کا ناموں کا اعلان کرنا ظاہر کیا گیا ہے۔

“وکست بھارت بلڈاتھون 2025” دراصل بھارت سرکار کی نئی ایجوکیشن پالیسی 2020ء کے تحت اس بات کا اعلان ہے کہ ہندوستان کا مستقبل نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔

یہی نوجوان ہی وہ تخلیقی ذہن ہیں جو سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراع کے ذریعے ملک کو ترقی یافتہ قوم بنانے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ اس لیے یہ صرف ایک تعلیمی سرگرمی نہیں بلکہ ایک قومی تحریک ہے جو طلبہ کو خواب دیکھنے، سوچنے، اور بے خوف اختراع کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ وزارتِ تعلیم نے تمام اسکولوں، اساتذہ اور طلبہ سے اپیل کی ہے کہ وہ پورے جوش و جذبے کے ساتھ اس میں حصہ لیں اور ہندوستان کی اختراعی کہانی میں اپنا نام درج کرائیں۔ 

***

 







 *پندرہ سو سالہ جشنِ عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم: محبت و عقیدت کا عظیم الشان تہوار*


از:رضوی سلیم شہزاد، مالیگاؤں 

موبائل: 9130142313 


عیدوں کی عید، عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم وہ مقدس دن ہے جب ہمارے پیارے نبی، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں رحمت بن کر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا یہ یادگار دن پندرہ سوّاں 12/ربیع الاول شریف ہوگا۔امسال پندرہ سو سالہ جشنِ عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ایک عظیم الشان موقع ہے جو امت مسلمہ کے لیے خوشیوں، برکتوں اور ایمان کی تجدید کا باعث ہے۔ یہ جشن اور تہوار صرف ایک دن کا جشن نہیں بلکہ ایک عظیم روحانی سفر ہے جو ہمیں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو اپنانے کی دعوت دیتا ہے۔

اس سال پندرہ سو سالہ جشنِ عیدِ میلادُ النّبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کے استقبال میں امت مسلمہ اپنی محبت و عقیدت کے رنگارنگ انداز سے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے رشتے کو مزید مضبوط کر رہی ہے۔ وہ لوگ جو اس عظیم موقع پر اپنی خوشیوں کا اظہار کر رہے ہیں، وہ یقیناً سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے انعام و اکرام کے مستحق ہیں۔ ان کی محنت، عقیدت اور محبتِ رسول کا جذبہ قابلِ تحسین ہے، کیونکہ خوشی کا یہ سب کچھ اظہار صرف اور صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں آپ کے ذکر خیر کو ذہنوں میں پیوست کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔


*لنگرِ رسول: محبت کی تقسیم*


اس مبارک موقع پر وہ افراد اور مساجد و مدارس کے ذمہ داران خصوصی طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں جو رضا اکیڈمی کے اعلان پر گذشتہ سال سے ہر پیر کو لنگرِ رسول تقسیم کر رہے ہیں، اور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ صرف اپنی عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ اطعام کو بھی زندہ کر رہے ہیں۔ لنگرِ رسول کی یہ روایت جو سال بھر کے 52 ہفتے جاری رہی، ضرورت مندوں کے لیے رزق اور برکت کا ذریعہ بنتی رہی ہے۔ یہ عمل نہ صرف معاشرے میں خیرات و صدقات کے جذبے کو فروغ دیتا ہے بلکہ امت کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔ ایسے لوگ جنہوں نے اپنے مال و دولت کو راہِ خدا میں خرچ کیا ہے، یقیناً رب تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے مستحق ہیں۔ ہم ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اس عظیم الشان جشن اور "عیدوں کی عید" کی خوشیوں میں بھوکے اور ضرورت مندوں کو شامل کرکے انہیں اس کا حصہ بناتے رہے ہیں۔


*نعتیہ مشاعرے: سرکار کی مدحت کا عظیم الشان سلسلہ*


سالِ گذشتہ سے ہر ماہ نعتیہ مشاعروں کا اہتمام کرنے والے منتظمین، سامعین، شاعر اور نعت خواں افراد بھی خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔ یہ نعتیہ محافل دلوں کے سکون اور روحانی پاکیزگی کا ذریعہ ہیں۔ نعت خوانی اور میلاد کی محافل محض الفاظ کی ترسیل کا مجموعہ نہیں بلکہ دل سے دل تک پہنچنے والی وہ دعا ہے جو ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جوڑتی ہے، یہ محافل ہر عمر کے افراد کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتی ہیں، جہاں وہ اپنے نبی اور محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت و عقیدت کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ ہم ان تمام شعراء، نعت خوانوں اور منتظمین و سامعین کی بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اس خوبصورت روایت کو جاری رکھیں اور ہر دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا چراغ روشن کرتے رہیں۔


*سجاوٹ، جلوس اور جلسے: خوشیوں کا رنگا رنگ اظہار*


پندرہ سو سالہ جشنِ عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال میں وہ افراد جو گلیوں، بازاروں، گھروں اور مساجد و مدارس کو سجا رہے ہیں، وہ بھی اس عظیم تہوار "عیدوں کی عید" کی رونق بڑھا رہے ہیں۔ روشنیوں، قمقموں، جھنڈیوں اور پرچمِ رسالت سے سجے یہ مناظر ہر دیکھنے والے کے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو تازہ کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو جلوس اور جلسوں کا اہتمام کر رہے ہیں، وہ امتِ مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے اتحاد و محبت کا پیغام دے رہے ہیں۔ یہ جلوس اور جلسے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نعتوں اور نعروں اور ذکرِ خیر کی گونج ہوتی ہے، نہ صرف ایمان کو تازہ کرتے ہیں بلکہ غیروں کو بھی سرکار کی سیرت طیبہ سے متعارف کرانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ہم ان سب کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اس جذبے کو جاری رکھیں اور ہر ممکن طریقے سے اس عظیم جشن کو یادگار بنائیں۔


*عیدِ میلادُ النّبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا عظیم پیغام*

امسال منعقد ہونے والا پندرہ سو سالہ جشنِ عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ یہ تہوار ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو ان کی سیرت طیبہ کے مطابق ڈھالیں، محبت، اخلاص اور ایثار کے جذبے کو اپنائیں، اور معاشرے میں خیر و برکت پھیلائیں۔ وہ تمام افراد جو اس جشن کو منانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، وہ نہ صرف اپنے ایمان کو مضبوط کر رہے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی ایک عظیم مثال قائم کر رہے ہیں۔

آئیے، ہم سب مل کر اس پندرہ سو سالہ جشنِ عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک عظیم الشان تہوار کے طور پر اس طرح منائیں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں اُتاریں، اُن پر عمل آوری کا اپنے آپ سے عہد کریں، سنت و سیرتِ رسول کو اپنائیں، برائیوں سے دور رہنے کا عہد کریں، نیکیوں کو عام کریں۔ اپنے دلوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے منور کریں، ان کی سنتوں پر عمل کریں، اور اس "عیدوں کی عید" کے اس عظیم الشان موقع پر انعام و اکرام کے مستحق بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس مبارک تہوار کی برکتوں سے مالا مال کرے اور ہمیں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے۔ آمین!

 


 


 




ریاستی گیت کی ادبی و ثقافتی اہمیت، تاریخ کے آئینے میں 


✍️رضوی سلیم شہزاد مالیگاؤں 

(9130142313) 


سن 2023 میں مہاراشٹر حکومت نے سرکاری طور پر حکم جاری کیا تھا کہ ریاست کی تمام زبانوں کی تمام نجی و سرکاری اسکولوں میں روزانہ اسکول اسمبلی میں پیش درس کے دوران ریاستی گیت "جئے جئے مہاراشٹر ماجھا، گرجا مہاراشٹر ماجھا" اس گیت کو گایا جائے۔ ایک سال بعد دوبارہ حکومت مہاراشٹر ڈیپارٹمنٹ آف اسکول ایجوکیشن اینڈ اسپورٹس نے اپنے سرکلر نمبر: سنکرنا-2024/P.No.127/SD-4 تاریخ: 15 مارچ 2024ء کو اسکولوں میں اس راجیہ گیت کو پڑھنا لازمی قرار دیا اور سختی کے ساتھ اس پر عمل آوری کے لئے افسران کو پابند کیا۔ 


ریاستی حکومت کے ان حکمناموں کی روشنی میں نئے تعلیمی سال 2025-26 کیلئے مالیگاؤں میونسپل کارپوریشن، ٹیچنگ ڈیپارٹمنٹ آفس کے ایڈمنسٹریٹیو آفیسر شری چندر کانت پاٹل نے 9/جولائی کے اپنے ایک حکمِ گشتی جاوک نمبر ایم.این.پی/محکمہ تعلیم/ استھاپنا/ 220/ 2025ء کے تحت شہر کی تمام میڈیم کی تمام سرکاری و نجی پرائمری و سیکنڈری اسکولوں میں اس گیت کو گانا لازمی قرار دیا ہے۔ اے او شری چندر کانت پاٹل کے اس حکمِ گشتی میں مذکورہ بالا حکومتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے کہ "آزادی کے امرت مہوتسو" پر ریاست کے نوجوانوں کو متاثر کرنے والا ریاستی گیت "جئے جئے مہاراشٹر ماجھا، گرجا مہاراشٹر ماجھا" ریاست کے تمام میڈیم اور تمام انتظامی سرکاری و نجی اسکولوں میں روزانہ سیشن کے آغاز سے پہلے قومی ترانہ، تلاوت، دعا وغیرہ کے ساتھ "جئے جئے مہاراشٹر ماجھا، گرجا مہاراشٹر ماجھا" گایا جائے گا۔ موصوف نے اسکول انتظامیہ کمیٹی سے امید کی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اسکولوں میں یومیہ سیشن شروع ہونے سے پہلے قومی ترانہ، تلاوت، دعا، عہد وغیرہ کے ساتھ ریاستی ترانہ "جئے جئے مہاراشٹرا، گرجا مہاراشٹرا ماجا" بلند آواز سے گایا جائے۔


اپنے حکمِ گشتی کے آخری میں اے او موصوف نے واضح کیا ہے کہ متعلقہ حکومتی حکم پر سختی سے عمل کیا جانا ضروری ہے۔ اسکولوں میں دورانِ وزٹ اگر پایا گیا کہ کوئی اسکول مذکورہ حکم پر عمل نہیں کررہا ہے تو متعلقہ اسکول کے خلاف تادیبی کارروائی کے لیے حکومت کو تجویز روانہ کی جائے گی۔


اس گیت کو نوجوان نسل اور طلبہ تک پہنچانے کا مقصد بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نوجوان نسل میں مہاراشٹر کی تاریخ، بہادری، ثقافت، محنت اور خودداری کا شعور بیدار کرنا ہی اس گیت کا پیغام ہے جس میں مہاراشٹر کے عظیم مجاہد شیواجی مہاراج کی میراث کا ذکر کرتے ہوئے کسانوں اور مزدوروں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔

-----------------------------------------------



*🏛️ مہاراشٹر کے ریاستی گیت کا تاریخی، ادبی اور ثقافتی پس منظر*



یہ گیت پہلی بار 1960 میں مہاراشٹر ریاست کے قیام کے بعد گایا گیا، جب بمبئی اسٹیٹ سے الگ ہوکر مہاراشٹر کو ایک علاحدہ ریاست کا درجہ دیا گیا۔ اس گیت کو مہاراشٹر کے مشہور قومی و عوامی شاعر راجہ بڈھے نے لکھا تھا، جو مراٹھی زبان کے ملک گیر شہرت یافتہ ادیب اور محب وطن شاعر تھے۔


*مہاراشٹر کے ریاستی گیت کی ادبی خصوصیات:*

یہ گیت مارشل انداز میں لکھا گیا ہے، جس میں ولولہ، فخر، جذبہء حبّ الوطنی، اور ریاستی غیرت نمایاں ہے۔اس گیت میں شیواجی مہاراج، محنت کش عوام، اور ان کی دلیری جیسے عناصر کو مہاراشٹر کی شناخت قرار دیا گیا ہے۔ تشبیہات اور استعارے خوبصورتی سے استعمال ہوئے ہیں جیسے "آسمان کی سلطنت"، "فولادی من" اور "گرمی میں جلنا" وغیرہ

-----------------------------------------------


*🌺اردو رسم الخط میں مہاراشٹر راجیہ گیت🌺*


جئے جئے مہاراشٹر ماجھا، گرجا مہاراشٹر ماجھا

جئے جئے مہاراشٹر ماجھا، گرجا مہاراشٹر ماجھا۔۔


بِھیتی نا آمہا تُجھی مُڑی ہی، گڑگڑناریا نَبھا 

اسَماناچیا سُلتانی لا، جباب دیتی جِبھا

سَہیادری چیا سِینھ گَرجتو، شِیو شَنبھو راجا

دَری دری تُن ناد گُنجلا، مہاراشٹر ماجھا

جئے جئے مہاراشٹر ماجھا، گرجا مہاراشٹر ماجھا۔۔

جئے جئے مہاراشٹر ماجھا، گرجا مہاراشٹر ماجھا۔۔


کاڑیا چھاتی وَری کورلی، ابھیماناچی لِینی 

پَولادی من گَٹے کِھیڑتی، کھیل جیو گِھینی

دارِدرا چیا اُنهات شِجلا، نِڈھڑا چیا گھامانے بِھجلا

دیش گَوروا ساٹھی جھجلا، دِلّی چے ہی تخت راکھیتو، مہاراشٹر ماجھا

جئے جئے مہاراشٹر ماجھا، گرجا مہاراشٹر ماجھا، 

جئے جئے مہاراشٹر ماجھا۔۔

-----------------------------------------------


*🌍🌺مہاراشٹر راجیہ گیت کا اردو ترجمہ🌺*


مہاراشٹر کی جے ہو، مہاراشٹر گونجے، للکارے

مہاراشٹر کی جے ہو، مہاراشٹر گونجے، للکارے

ہم تجھ سے نہیں ڈرتے، اے گرجنے والے آسمان۔

آسمان کی سلطانی کے لیے ہماری زبان للکار رکھتی ہے۔ (مُراد ہم ہواؤں پر ہمارا راج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔) 


سہیادری کا شیر دھاڑتا ہے، شیو شمبھو بادشاہ (مراد شیواجی مہاراج) 


پہاڑوں کے دامن میں چاروں طرف مہاراشٹر کی آواز گونج رہی ہے۔

ہم نے (پہاڑوں کے سیاہ سینے پر) فخر و غرور کا غار کندہ کیا ہے۔

ہماری فولادی کلائیاں جان لیوا کھیل کھیلتی ہیں۔

ہم غربت کی دھوپ میں (تپ کر) کُندن بنے ہیں۔

ہم شدید محنت کے پسینے میں بھیگے ہوئے ہیں۔ (مراد محنت کش ہیں۔) 


-----------------------------------------------


*🌺مہاراشٹر کے ریاستی گیت کی تشریح🌺*


*پہلے بند کی تشریح:*

ہم ان لوگوں سے نہیں ڈرتے جو ہمارے خلاف سازشیں کرتے ہیں اور ہمارے خلاف بولتے ہیں۔ گرجتے بادل ہمیں ڈرا نہیں سکتے۔ ان کا جواب دینے کے لیے ہماری زبانیں کافی ہیں۔ ایسی ہی تعلیم ہمیں چھترپتی شیواجی نے دی ہے، سہادریوں کے شیر کی تعلیمات کے نعرے گھر گھر جا رہے ہیں۔ یہ مہاراشٹر میرا ہے۔


*دوسرے بند کی تشریح:*

مہاراشٹر کے لوگ بہادر ہیں۔ ان کے سیاہ سینے پر مہاراشٹر کا فخر نقش ہے۔ ان کی کلائیاں فولاد کی بنی ہوئی ہیں۔ اس لیے وہ اپنی جانوں سے کھیلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ مہاراشٹر کے لوگ غربت کی دھوپ میں تپتے ہیں، محنت کرکے پسینہ بہاتے ہیں۔ نسل در نسل لوگوں نے ملک کی شان کے لیے محنت کی ہے۔ مہاراشٹر ایسا ہے کہ دہلی کے تخت کی حفاظت بھی کر سکتا ہے۔

-----------------------------------------------

 


پیشۂ درس و تدریس: اساتذہ، سماج اور انتظامیہ کے ٹیم ورک سے تربیتی عمل مکمل ہوتا ہے۔

(روزنامہ انقلاب ممبئی کے 13/جولائی 2025ء کے اداریہ سے متاثر ہوکر لکھی گئی تحریر)

تحریر: رضوی سلیم شہزاد، مالیگاؤں
9130142313

*تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد* اور اس کے مستقبل کا ضامن ہوتی ہے، اور اس تعلیمی عمل کا سب سے اہم کردار معلم یعنی استاذ ادا کرتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب استاد کو روحانی والد، سماجی رہنما اور علم و اخلاق کا مینار سمجھا جاتا تھا۔ آج اگر معاشرے میں بگاڑ، بد اخلاقی، جہالت، بے راہ روی اور خودکشی جیسی وبا عام ہورہی ہے تو اس کا ایک بڑا سبب خود نظامِ تعلیم میں پائی جانے والی کمزوریاں، اساتذہ کی ذمہ داریوں سے غفلت، سماج کی اساتذہ کرام سے اُکتاہٹ و بے رغبتی اور انتظامیہ کی جانب سے اساتذہ پر لادی جانے والی غیر تدریسی سرگرمیاں بھی ہیں۔

*اساتذہ کا پیشہ محض روزگار یا ملازمت نہیں* بلکہ یہ ایک مقدس فریضہ، نبوی وراثت اور انسانی تربیت کا منصب ہے۔ استاد محض کتاب پڑھانے والا نہیں بلکہ وہ ایک رہبر، مشیر، کردار ساز اور قوم کا معمار ہوتا ہے۔ آج کے دور میں جب دنیا معاشی و سائنسی ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھ رہی ہے، ہمارے تعلیمی ادارے اور اساتذہ کہیں نہ کہیں اپنی اصل روح سے دور ہوتے جارہے ہیں، جس سے سماج میں ان کا مرتبہ کم ہوتا جارہا ہے۔ ایک استاد کے لیے سب سے ضروری ہوتا ہے اپنے کردار و اخلاق کو مجروح ہونے سے بچانا مگر افسوس! کم کم ہی سہی مگر بہت سے اساتذہ اپنے کردار و اخلاق پر حرف آنے کی بالکل بھی پرواہ نہیں کرتے، کسی شاعر نے کہا ہے کہ

*اپنے کردار کو موسم سے بچائے رکھنا*
*لَوٹ کر پھول میں واپس نہیں آتی خوشبو*

13/جولائی 2025ء اتوار کے روزنامہ انقلاب ممبئی کے حالیہ اداریہ میں بجا طور پر نشاندہی کی گئی ہے کہ پیشۂ تدریس آج چمک دمک کھو چکا ہے! یعنی اس مقدس پیشے کی شان، تاثیر اور اخلاقی اثر ختم ہوتا جارہا ہے۔ نہ اساتذہ کو اپنے مقام کا احساس رہا ہے، نہ طلبہ میں استاد کے لیے ادب و احترام کی وہ چمک باقی رہی ہے جو کبھی مشرقی تہذیب کا خاصہ تھی۔

*بدقسمتی سے آج ہمارے ملک میں اساتذہ کو اصل تدریسی کاموں کے بجائے* غیر تدریسی اور غیر تعلیمی سرگرمیوں میں الجھا دیا گیا ہے۔الیکشن ڈیوٹی، مردم شماری، اسکالرشپ ڈیٹا اندراج، ووٹر لسٹ، آنگن واڑی سروے، اور طرح طرح کی سرکاری اسکیموں کی ذمہ داریاں اساتذہ پر لاد دی گئی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنا اصل کام، یعنی بچوں کی تعلیم و تربیت، دلجمعی سے نہیں کر پاتا۔ یہ ایک افسوسناک اور خطرناک رجحان ہے، جو نہ صرف تعلیمی معیار کو گرا رہا ہے بلکہ اساتذہ کو احساسِ کمتری اور بے بسی میں بھی مبتلا کر رہا ہے۔
اسی طرح سماج اور انتظامیہ کی جانب سے بھی استاد کے وقار کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ ایک وقت تھا جب گاؤں کے بزرگ بھی استاد کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے، اور طلبہ ان کے جوتے سیدھے کرنے کو سعادت سمجھتے تھے۔ مگر آج اکثر والدین اساتذہ پر انگلی اٹھاتے ہیں، سوشل میڈیا پر اُن کی بے عزتی عام ہوگئی ہے اور اسکول انتظامیہ بھی کئی بار اساتذہ کو صرف ایک کلرک یا درجہ چہارم ملازم کی نظر سے دیکھتی ہے اور ان کے ساتھ اسی انداز کا برتاؤ بھی کرتی ہے۔

*اساتذہ کی اصل ذمہ داری صرف نصاب مکمل کرانا نہیں* بلکہ طلبہ کی علمی، اخلاقی، جذباتی، نفسیاتی اور معاشرتی تربیت کرنا ہے۔ ان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ طلبہ کی شخصیت پر دیرپا اثر رکھتے ہیں۔ اگر استاد خود وقت کا پابند، دیانتدار، مہذب اور مثالی نہیں تو طلبہ میں ان صفات کی امید رکھنا بے کار ہے۔
گستاخی معاف! موجودہ دور میں کئی اساتذہ محض تنخواہ کے عوض کام کرنے لگے ہیں، گویا وہ پیشۂ درس و تدریس کو عبادت نہیں بلکہ ایک تجارتی معاملہ سمجھتے ہیں۔ اس کا بھی نتیجہ ہے کہ کئی اسکولوں میں تعلیم صرف کاروبار بن کر رہ گئی ہے۔ تعلیم کا مقصد محض ڈگریاں بانٹنا نہیں، بلکہ انسان سازی اور کردار سازی ہونا چاہیے۔

*ضرورت اس بات کی ہے کہ* اساتذہ کو دوبارہ ان کے مقدس مقام کا شعور دیا جائے۔ تربیتی ورکشاپس، اخلاقی تربیت، اور تعلیمی فلسفے پر مبنی نشستیں وقت کی اہم ضرورت ہیں اور یہ کام سرکاری یا انتظامی سطح پر نہیں بلکہ اساتذہ کی انجمنوں اور یونین کے ذریعہ کیا جانا چاہیے تاکہ ان میں خود احتسابی کا جذبہ پروان چڑھے اس لئے کہ بذاتِ خود اپنی اصلاح زیادہ موثر اور مستقل ہوتی ہے۔ اسی کے ساتھ حکومت و تعلیمی اداروں کو بھی اساتذہ کی معاشی، سماجی اور تعلیمی فلاح و بہبود پر توجہ دینی چاہیے، تاکہ وہ بے فکری سے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔

*اساتذہ اگر اپنی ذمہ داریاں پہچان لیں* اور پوری دیانت، لگن اور اخلاص سے طلبہ کی تربیت کریں، تو یقیناً ہماری نئی نسل نہ صرف علم سے آراستہ ہوگی بلکہ کردار کی پختگی، حب الوطنی، اور انسانیت کا پیکر بنے گی۔ دعا ہے کہ مولی تبارک و تعالیٰ اپنے حبیب علیہ السلام کے صدقے ہمارے اساتذہ کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے، نبھانے اور نسلِ نو کی بہتر رہنمائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ کیونکہ ایک اچھا استاد نہ صرف ایک طالبعلم کو بلکہ پوری نسل کو بدل سکتا ہے۔
***


 




 


 


 


 


 


 


آخری کمبل

(افسانچہ) 

ازقلم : عارف محمد خان جلگاوں


     سردیوں کا موسم شروع ہوتے ہی ماحول کا رنگ بدل جاتا ہے۔ سورج کی تپش اور گرم ہوا کے تھپڑے فضا سے ایسے غائب ہوجاتے ہیں گویا ان کا وجود ہی نہیں تھا۔جاڑے کا سخت موسم تھا اور سردی اپنے عروج پر تھی۔درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گر کر منفی میں پہنچ چکا تھا۔سارے شہر پر گھنے کہرے کا راج تھا۔وہ رات کے اندھیرے میں تنہا اپنی کار میں چند کمبل لے کر نکل پڑا ۔سڑک کے فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے بے گھر اور مفلس لوگوں کے جسم پر کمبل ڈالتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔اس کی نظر تھوڑی دوری پر پڑھی جہاں چند افرا بے خطر محو خواب تھے۔اس نے اپنی گاڑی کنارے لگائی اور ڈکی سے کمبل نکالنے لگا۔صرف ایک کمبل باقی تھا۔وہ شش و پنج میں پڑ گیا کہ آخر کسے کمبل دے؟؟ اس نے قریب کے شخص کے جسم پر کمبل ڈال دیا اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔صبح اسی راستے سے وہ آفس جانے لگا تو اسی جگہ بھیڑ اکٹھا تھی۔وہ گاڑی سے اتر کر دریافت کر نے لگا ؟ کیا ماجرا ہے؟ پتا چلا کہ ایک ضعیف شخص جو فٹ پاتھ پر سویا ہوا تھا کل رات کی ٹھنڈ کی تاب نا لا سکا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سوگیا۔جب وہ اس کے قریب پہنچا تو اپنے باپ کو دیکھتے ہی اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور اسے دل دوز رات یاد آگئی جب گھر میں ہمیشہ ہونے والی بحث و تکرار سے تنگ آکر اور اپنے بیٹے کے سکون کی خاطر اس کے باپ نے ایک رات خاموشی سے ایک خط بیٹے کے نام یہ لکھ کر چھوڑ دیا تھا کہ اس کی تلاش میں وقت ضائع نہ کرے اور اپنی ازدواجی زندگی سکون سے گزارے اسی میں میری خوشی ہے۔۔

Career Book 📖

 


 


 

 




 
Design by Wordpress Theme | Bloggerized by Free Blogger Templates