عہدِ سلاطین

Era of Sultans


عہدِ سلاطین




دہلی سلطنت کے حکمرانوں کی فہرست:



دہلی سلطنت کا آغاز خاندان غلاماں سے ہوا اور اس کا خاتمہ لودھی خاندان پر ہوا۔ 1206ء میں سلطان قطب الدین ایبک لاہور میں تخت نشیں ہوا اور اس طرح دہلی سلطنت کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا۔ دہلی سلطنت کے 320 سالہ دوردہلی سلطنت کے حکمرانوں کی فہرست
دہلی سلطنت کا آغاز خاندان غلاماں سے ہوا اور اس کا خاتمہ لودھی خاندان پر ہوا۔ 1206ء میں سلطان قطب الدین ایبک لاہور میں تخت نشیں ہوا اور اس طرح دہلی سلطنت کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا۔ دہلی سلطنت کے 320 سالہ دور حکومت میں پانچ خاندانوں نے حکومت کی۔ 21 اپریل1526ء کو ابراہیم لودھی کو ظہیر الدین بابر نے پہلی جنگ پانی پت میں شکست دے کر دہلی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔

خاندان غلاماں کی حکومت 1206ء میں قائم ہوئی اور 1290ء میں شمس الدین کیومرث پر اس خاندان کا خاتمہ ہوا۔ اس خاندان نے 84 سال حکومت کی۔

 سلاطین عہدِ حکومت

👑 قطب الدین ایبک 20 جون 1206ء –            1210ء

👑 آرام شاہ 4 نومبر 1210ء – مئی 1211ء

👑 التتمش مئی 1211ء – 28 اپریل 1236ء

👑 رکن الدین فیروز 28 اپریل 1236ء –            20 نومبر 1236ء

👑 رضیہ سلطانہ 10 نومبر 1236ء – 14           اکتوبر 1240ء

👑 معز الدین بہرام شاہ 15 اکتوبر 1240ء –.     10 مئی 1242ء

👑 علاؤ الدین مسعود شاہ 10 مئی 1242ء –     10 جون 1245ء

👑 ناصر الدین محمود 10 جون 1245ء –         18 فروری 1266ء

👑 غیاث الدین بلبن 18 فروری 1266ء –            13 جنوری 1287

👑 معز الدین کیقباد 14 جنوری 1287ء –          یکم فروری 1290ء

👑 شمس الدین کیومرث یکم فروری 1290ء – 13 جون 1290ء

👑 سلطان غیاث الدین تغلق شاہ 8 ستمبر          1321ء – فروری 1325ء

👑 محمد بن تغلق فروری 1325ء – 20 مارچ 1351ء

👑 فیروز شاہ تغلق 23 مارچ 1351ء – 20         ستمبر 1388ء

👑 غیاث الدین تغلق شاہ دؤم 20 ستمبر             1388ء – 14 مارچ 1389ء

👑 ابوبکر شاہ 15 مارچ 1389ء – 1390ء
👑 ناصر الدین محمد شاہ سوم 1390ء –           1393ء

👑 علاؤ الدین سکندر شاہ ہمایوں خان              مارچ/ اپریل 1393ء

👑 ناصر الدین محمود شاہ 1393ء –                 1394ء

👑 ناصر الدین محمود شاہ تغلق 1394ء –          فروری 1413ء

👑 ناصر الدین محمود شاہ 1399ء –                1412ء


نوٹ : یہاں پر صرف "شرغعتن" یعنی 

👈 شمس الدین التمش،

👈 رضیہ سلطانہ،

👈 غیاث الدین بلبن،

👈 علاؤالدین خلجی،

👈 محمد تغلق،
      اور 
👈 ناصر الدین محمود 

سے متعلق معلومات درج کی جارہی ہے۔



شمس الدین التمش



شمس الدین التتمش (وفات: 28 اپریل 1236ء) سلطنت دہلی كا تیسرا حكمران اور خاندان غلاماں كا تیسرا بادشاه، جو قطب الدین ایبک کا غلام تھا اور اس نے ہونہار دیکھ کر اسے اپنا داماد بنا لیا تھا۔
وفات
28 اپریل 1236 ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مہرؤلی ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن
قطب کمپلیکس ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ
قطب بیگم
شاہ ترکان ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد
ناصر الدین محمود، رضیہ سلطانہ، معز الدین بہرام شاہ، رکن الدین فیروز ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان
خاندان غلاماں ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
سلطان سلطنت دہلی ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
مئی 1211 – 28 اپریل 1236 
Fleche-defaut-droite-gris-32.png آرام شاہ 
رکن الدین فیروز 

1211ء میں قطب الدین ایبک کے نااہل بیٹے آرام شاہ کو تخت سے اتار کر خود حکمران بن گیا۔ اس وقت وہ بہار کا صوبیدار تھا۔ تخت نشین ہوتے ہی اُسے ان صوبیداروں کی سرکوبی کرنی پڑی جو خود مختار بن بیٹھے تھے۔ خطۂ پنجاب اور غزنی میں تاج الدین، سندھ میں ناصر الدین قباچہ اور بنگال میں خلجیوں نے سر اٹھایا۔ اس نے سب کو مطیع کیا۔ 1226ء سے 1234ء تک کے درمیانی مدت میں راجپوتوں سے جنگ کرکے رنتھمبور، منڈو، گوالیار اور اُجین فتح کیے.

1221ء میں منگول سردار چنگیز خان خوارزم شاہی سلطنت کے بادشاہ جلال الدین خوارزم کا تعاقب کرتے ہوئے دریائے سندھ تک آ پہنچا، لیکن دریا سے پہلے تمام علاقے کو تباہ برباد کرکے واپس چلا گیا اور ہندوستان اس خوف ناک آفت سے بچ گیا۔

التتمش نے قطب مینار اور قوت اسلام مسجد کو مکمل کرایا، جنہیں قطب الدین ایبک اپنی زندگی میں نامکمل چھوڑ گیا تھا۔

التتمش نے رضیہ سلطانہ کو اپنا جانشیں مقرر کیا۔


مزید معلومات کے لئے




رضیہ سلطانہ



رضیہ سلطان یا رضیہ سلطانہ (شاہی نام: جلالۃ الدین رضیہ) (فارسی:جلالہ الدین رضیہ؛ ہندی: जलालत उद-दीन रज़िया) جنوبی ایشیا پر حکومت کرنے والی واحد خاتون تھیں۔ وہ 1205ء میں پیدا ہوئیں اور 1240ء میں انتقال کرگئیں۔ وہ افغان غوري نسل سے تعلق رکھتی تھیں اور کئی دیگر مسلم شہزادیوں کی طرح جنگی تربیت اور انتظام سلطنت کی تربیت بھی حاصل کی تھی۔
معلومات شخصیت
پیدائش
سنہ 1205 ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بدایوں ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات
13 اکتوبر 1240 (34–35 سال) ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن


مقبرہ رضیہ سلطانہ ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات
ملک التونیا ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد
التتمش ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ
قطب بیگم ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
معز الدین بہرام شاہ، ناصر الدین محمود ویکی ڈیٹا پر (P3373) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان
خاندان غلاماں

خاندان غلاماں حکمران کیسے بنا؟ ترميم
شمس الدین التتمش، سلطان قطب الدین ایبک کے ترک غلام تھے ان کی ہونہاری اور صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے قطب الدین نے انہیں پہلے اپنا داماد اور پھر بہار کا صوبیدار بنایا، 1211 میں التتمش نے قطب الدین کے بیٹے آرام شاہ کو تخت سے اتار اور خود بادشاہ بن گئے۔ انہوں نے تقریباً 35 سال حکومت کی اور رضیہ سلطانہ انہی کی بیٹی تھیں۔

پیدائش، ابتدائی زندگی ترميم
رضیہ سلطانہ 1205 میں پیدا ہوئیں، ان کے آٹھ بھائی تھے لیکن والد کے سب سے زیادہ قریب وہی تھیں کیونکہ ان کے زیادہ تر بھائی ریاست چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے جسے التتمش نے بہت پہلے محسوس کر لیا تھا۔ رضیہ رنگ و روپ کےعلاوہ بھی ہر اس ہنر سے آشنا تھیں جو حکمران بننے کے لیے ضروری ہو، یہی وجہ ہے کہ التتمش نے ان کی پرورش انہی خطوط پر کی۔ تلوار بازی، گھڑ سواری کے ساتھ ساتھ اچھی تعلیم بھی دلوائی گئی نوعمری میں پردہ بھی شروع کروا دیا گیا۔التتمش نے انہیں اپنا جانشیں مقرر کیا تو خاندان ہی نہیں پورے ملک میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ ’عورت حکمران کیسے ہو سکتی ہے؟‘ التتمش کے انتقال کے بعد وصیت پر عمل نہیں کیا گیا اور رضیہ کے بھائی رکن الدین نے تخت پر قبضہ کر لیا۔ سب کا خیال تھا کہ رضیہ عام خاتون کی طرح رو دھو کر چپ کر جائیں گی مگر وہ ’عام‘ نہیں تھیں۔اسی لیے۔سلطنت دہلی کے خاندان غلاماں کے بادشاہ شمس الدین التتمش نے جنہوں نے اپنے کئی بیٹوں پر ترجیح دیتے ہوئے رضیہ کو اپنا جانشیں قرار دیا۔ تاہم التتمش کے انتقال کے بعد رضیہ کے ایک بھائی رکن الدین فیروز نے تخت پر قبضہ کر لیا اور 7 ماہ تک حکومت کی۔ لیکن رضیہ سلطانہ نے دہلی کے لوگوں کی مدد سے 1236ء میں بھائی کو شکست دے کر تخت حاصل کر لیا۔کہا جاتا ہے کہ تخت سنبھالنے کے بعد انہوں نے زنانہ لباس پہننا چھوڑدیا تھا اور مردانہ لباس زیب تن کرکے دربار اور میدان جنگ میں شرکت کرتی تھیں۔

رضیہ کے خلاف بغاوت ترميم
رضیہ کے مخالفین نے جب دیکھا کہ دہلی کے عوام رضیہ کے جاں نثار ہیں تو انہوں نے دیگر علاقوں میں سازشوں کے ذریعے بغاوتیں پھیلائیں۔ سلطنت کی اہم شخصیات نےبھٹنڈہ کے صوبے دار ملک التونیہ کی قیادت میں رضیہ کے خلاف بغاوت کی۔ رضیہ سلطان ان کی بغاوت کچلنے کے لیے دہلی سے فوج لے کر نکلی مگر اس کی فوج نے رضیہ کے خلاف باغیوں کا ساتھ دیا۔ رضیہ کا وفادار جرنیل امیر جمال الدین یاقوت مارا گیا رضیہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ باغیوں نے رضیہ کے بھائی معز الدین بہرام کو بادشاہ بنا ڈالا۔
رضیہ کو اس بات کاشدت سے احساس تھا کہ دہلی کا تخت حاصل کرنے کے لیے اسے مضبوط سہارے کی ضرورت ہے اس لیے رضیہ نے بھٹنڈہ کے گورنر ملک التونیہ سے شادی کی تاکہ تخت دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے لیکن جنگ میں انہیں شکست ہوئی۔ رضیہ اپنے شوہر کے ہمراہ جان بچانے کے لیے کیتھل یا کرنال کی طرف چلی گئی جہاں ڈاکوؤں کے ہاتھوں دونوں میاں بیوی مارے گئے۔ سلطان بہرام شاہ کے سپاہی جو ان کی تلاش میں تھے ان کی لاشوں کو پہچان کر دہلی لے آئے۔ انہیں پرانی دلی میں سپرد خاک کیا گیا۔ سرسیداحمد خان کی کتاب آثار الصنادیدکے مطابق دہلی کے ترکمانی دروازہ کے اندر محلہ بلبلی خانہ میں دو قبریں ہیں۔ ان قبروں کو “رجی سجی “کی درگاہ کہاجاتا ہے۔ یہ قبریں رضیہ سلطان اور ان کی بہن شازیہ کی ہیں۔ ان پر کسی قسم کی کوئی تختی نہیں ہے۔ یہاں ہر جمعرات کوہر مذہب کے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ قبروں پر چراغاں کیاجاتا ہے۔ لوگ منتیں مانتے ہیں۔

واضح رہے کہ رضیہ اپنے لیے سلطانہ کا لقب پسند نہیں کرتی تھیں کیونکہ اس کا مطلب ہے سلطان کی بیوی بلکہ اس کی جگہ خود کو رضیہ سلطان کہتی تھیں۔


مزید معلومات کے لئے




غیاث الدین بلبن



دورحکومت: 1266ء تا 1286ء
خاندان غلاماں کا آٹھواں سلطان۔ بطور غلام ہندوستان لایا گیا۔ سلطان التمش کی نگاہ مردم شناس نے اس کو خرید لیا۔ اس نے اپنے دور حکومت میں امرا اور سرداروں کا زور توڑ کر مرکزی حکومت کو مضبوط کیا۔ بغاوتوں کو سختی سے کچل کر ملک میں امن و امان قائم کیا اور سلطنت کو تاتاریوں کے حملے سے بچایا۔
بڑا مدبر ، بہادر اور منصف مزاج بادشاہ تھا۔ علماءو فضلا کا قدر دان تھا۔ اس کے عہد میں شراب کی خرید و فروخت اور راگ رنگ کی محفلوں کے انعقاد کی اجازت نہ تھی۔ انصاف کرتے وقت ہندو مسلم اور غریب اور امیر کی تمیز روا نہ رکھتا تھا۔ مجرموں کو سخت سزائیں دیتا۔ لیکن رعایا کے لیے بڑا فیاض اور روشن خیال تھا۔

ابتدائی زندگی

اس کی پیدائش 1200ءبتائی جاتی ہے۔ وہ فراختائی نسل کا ترک تھا اور البری قبیلے کے سردار کا بیٹا تھا بچپن اور کم عمری میں ہی وہ منگولوں کے ہاتھوں گرفتار ہوا جنہوں نے اسے اور اس کے خاندان کے لڑکوں کو غزنی لے جا کر فروخت کر دیا بقول مو¿رخین اسے خواجہ جمال الدین بصری نے خریداخواجہ صاحب نیک فطرت انسان تھے انہوں نے ان غلاموں کو اپنی اولاد کی طرح پالا جب یہ جوان ہوئے تو وہ انہیں دہلی لائے جہاں1232ءمیں سلطان شمس الدین التمش نے انہیں خریدلیا۔
اس کی عملی زندگی کا آغاز سقا ( ماشکی )کی حیثیت سے ہوا تاہم جلد ہی وہ سلطان کا مقرب خاص بن گیا۔



علاؤالدین خلجی



علاؤ الدین خلجی کا پیدائشی نام علی گرشاسپ خلجی تھا اور وہ ہندوستان میں خلجی خاندان کے دوسرے سلطان تھے۔ وہ خلجی خاندان کے سب سے طاقتور سلطان تھے۔

معلومات شخصیت
پیدائش
سنہ 1266  
دہلی  
وفات
4 جنوری 1316 (49–50 سال) کریں
دہلی  
وجہ وفات
ورم  
مدفن
دہلی  
زوجہ
ملکہ جہاں  
اولاد
قطب الدین مبارک شاہ، شہاب الدین خلجی  
خاندان
خلجی خاندان

علاء الدین خلجی کے زمانے میں منگولوں کے حملے کا شدید خطرہ تھا اور اس وجہ سے علاء الدین خلجی کو ایک بڑی فوج کی اشد ضرورت تھی۔ فوجی اخراجات کو قابو میں رکھنے کے لیے اس نے بازار میں ہر چیز کی قیمت مقرر کر دی اور اور اس پر سختی سے عمل کروایا۔ اس زمانے کے روپے کو تنکہ کہتے تھے اور وزن کے اعتبار سے ایک تنکہ ایک روپے کے بالکل برابر ہوتا تھا یعنی 96 رتی کا ہوتا تھا۔ ایک تنکہ تانبے کے بنے 50 جتال کے برابر ہوتا تھا۔ روزمرہ استعمال کی چیزیں سستی ہونے سے لوگ خوشحال ہو گئے اور علاء الدین خلجی کے مرنے کے بعد بھی عرصہ تک اس کے عہد کو یاد کیا کرتے تھے۔ علاء الدین خلجی نے دلال (middle man) کا کردار بالکل ختم کر دیا تھا اور ذخیرہ اندوزی کی سخت ترین سزا مقرر کی تھی۔ جاسوسی کاایک ایسا نظام مرتب کیا تھا کہ بادشاہ کو منڈی کی خبریں براہ راست پہنچائی جاتی تھیں۔

شے قیمت

گندم دیڑھ روپے میں دس من
جو ایک روپیے میں ساڑھے بارہ من
چنا ایک روپے میں دس من
چاول ایک روپے میں دس من
ماش ایک روپے میں دس من
دالیں ایک روپے میں دس من
چینی ایک روپے میں 38.5سیر
گڑ ایک روپے میں 166 سیر
گھی/مکھن ایک روپے میں 125 سیر
تل ایک روپے میں 150 سیر
عمدہ سوتی کپڑا ایک روپے میں 20 گز
کھدر کپڑا ایک روپے میں 40 گز
چادر ایک روپے میں پانچ
بہترین گھوڑا 100 سے 120 روپے تک
درمیانی گھوڑا 80 سے 90 روپے تک
عام گھوڑا 65 سے 70 روپے تک
گھوڑے کا بچہ 10 سے 25 روپے تک
عمدہ بیل 4 سے 5 روپے تک
گائے گوشت کے لیے 1.5 سے 2 روپے تک
دودھ دینے والی گائے 3 سے 4 روپے
بھینسا گوشت کے لیے 5 سے 6 روپے
بھینس دودھ دینے والی 10 سے 12 روپے
بکری روپے میں چار سے پانچ تک
کنیز۔ کام کرنے والی 5 سے 12 روپے
خوش شکل کنیز 20 سے 40 روپے
غلام لڑکا 20 سے 30 روپے

نگار خانہ
















محمد بن تغلق






دہلی سلطنت کے تغلق خاندان کا دوسرا حکمران جس نے 1325ء سے 1351ء تک حکومت کی۔

محمد بن تغلق یا محمد شاہ تغلق جن کا اصل نام الغ خان تھا،سلطانِ دہلی تھے۔ وہ 1325 تا 1351ء تک تخت افروز رہے۔[2] وہ تغلق سلطنتی خانوادے کے سلطان غیاث الدین تغلق کا بڑا بیٹا تھا۔

معلومات شخصیت

پیدائش
سنہ 1290 
ملتان 
وفات
20 مارچ 1351 (60–61 سال)
ٹھٹہ، سندھ 
مدفن
تغلق آباد قلعہ 
شہریت
سلطنت دہلی 
والد
سلطان غیاث الدین تغلق شاہ 
خاندان
تغلق

عجیب مخلوق

محمد شاہ تغلق ہی وہ حکمران تھا جس نے اس نیت سے دہلی کو ویران کیا کہ دار الحکومت اس مرکزی جگہ ہو جہاں سے تمام ملک کا برابر فاصلہ ہو....اس وجہ سے بادشاہ نے ایک نیا شہر دولت آباد کے نام سے آباد کیا اور اہلیان دہلی کو وہاں شفٹ ہونے کا حکم دیا جس کی وجہ سے دہلی ویران ہو گیا.... محمد شاہ تغلق کو تاریخ دانوں نے عجب المخلوقات کا لقب دیا ہے کہ جہاں اس میں نیکی کا جذبہ موجزن تھا وہیں اس میں برائی کا جذبہ بھی موجود تھا ...ایک طرف وہ پانچ وقت کا نمازی اور روزے کا پابند تھا وہیں دوسری طرف اس کے دل میں یہ کافرانہ خیال تھا کہ اتنی بڑی سلطنت ہے کاش مجھے #نبوت مل جایے اس کے علاوہ #خلافت عباسیہ سے سند خلافت لینے کے لیے اس نے تین ماہ تک #نماز اور #عید کی نماز پہ #پابندی لگا دی..... تین ماہ بعد جب سند خلافت ملی تو یہ پابندی ختم کی..... ظلم و بربریت میں یہ چنگیز خان، امیر تیمور سے بڑھ کر تھا ..... جانوروں کا شکار کرنے کی بجائے مظلوم انسانوں کا شکار کرتا تھا ..... بستیوں کی بستیاں اس کے اس ظلم کا شکار ہوگئیں ....ان ظلمات کی وجہ سے لوگ شہر چھوڑ کر جنگلات میں بھاگ گئے اور وہاں رہائش اختیار کی .

سکہ





ناصر الدین محمود



سلطنت دہلی کا آٹھواں مسلم حکمران جس نے 10 جون 1245ء سے 18 فروری 1266ء تک حکومت کی۔
ناصر الدین محمود (وفات: 18 فروری 1266ء) سلطنت دہلی کا آٹھواں سلطان رہا جس کا تعلق خاندان غلاماں سے تھا۔ وہ شمس الدین التمش کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا اور علاؤ الدین مسعود کی جگہ تخت پر بیٹھا۔ وہ انتہائی دیندار اور عبادت گزار حکمران تھا اور اپنی رحم دلی کے باعث مشہور تھا۔ اس کے دور میں معاملاتِ سلطنت اس کا نائب غیاث الدین بلبن سنبھالتا تھا۔ 1266ء میں اس کے انتقال کے بعد اقتدار بھی اسی غیاث الدین کو مل گیا کیونکہ محمود کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی۔

معلومات شخصیت

تاریخ پیدائش
سنہ 1228 
وفات
18 فروری 1266 (37–38 سال) 
دہلی 
والد
ناصر الدین محمود

برسر عہدہ
10 جون 1245 – 18 فروری 1266 


مزید معلومات کے لئے


عہدِ وسطی کے بھارت کی تاریخ


 
Design by Wordpress Theme | Bloggerized by Free Blogger Templates