پیشۂ درس و تدریس: اساتذہ، سماج اور انتظامیہ کے ٹیم ورک سے تربیتی عمل مکمل ہوتا ہے۔

(روزنامہ انقلاب ممبئی کے 13/جولائی 2025ء کے اداریہ سے متاثر ہوکر لکھی گئی تحریر)

تحریر: رضوی سلیم شہزاد، مالیگاؤں
9130142313

*تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد* اور اس کے مستقبل کا ضامن ہوتی ہے، اور اس تعلیمی عمل کا سب سے اہم کردار معلم یعنی استاذ ادا کرتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب استاد کو روحانی والد، سماجی رہنما اور علم و اخلاق کا مینار سمجھا جاتا تھا۔ آج اگر معاشرے میں بگاڑ، بد اخلاقی، جہالت، بے راہ روی اور خودکشی جیسی وبا عام ہورہی ہے تو اس کا ایک بڑا سبب خود نظامِ تعلیم میں پائی جانے والی کمزوریاں، اساتذہ کی ذمہ داریوں سے غفلت، سماج کی اساتذہ کرام سے اُکتاہٹ و بے رغبتی اور انتظامیہ کی جانب سے اساتذہ پر لادی جانے والی غیر تدریسی سرگرمیاں بھی ہیں۔

*اساتذہ کا پیشہ محض روزگار یا ملازمت نہیں* بلکہ یہ ایک مقدس فریضہ، نبوی وراثت اور انسانی تربیت کا منصب ہے۔ استاد محض کتاب پڑھانے والا نہیں بلکہ وہ ایک رہبر، مشیر، کردار ساز اور قوم کا معمار ہوتا ہے۔ آج کے دور میں جب دنیا معاشی و سائنسی ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھ رہی ہے، ہمارے تعلیمی ادارے اور اساتذہ کہیں نہ کہیں اپنی اصل روح سے دور ہوتے جارہے ہیں، جس سے سماج میں ان کا مرتبہ کم ہوتا جارہا ہے۔ ایک استاد کے لیے سب سے ضروری ہوتا ہے اپنے کردار و اخلاق کو مجروح ہونے سے بچانا مگر افسوس! کم کم ہی سہی مگر بہت سے اساتذہ اپنے کردار و اخلاق پر حرف آنے کی بالکل بھی پرواہ نہیں کرتے، کسی شاعر نے کہا ہے کہ

*اپنے کردار کو موسم سے بچائے رکھنا*
*لَوٹ کر پھول میں واپس نہیں آتی خوشبو*

13/جولائی 2025ء اتوار کے روزنامہ انقلاب ممبئی کے حالیہ اداریہ میں بجا طور پر نشاندہی کی گئی ہے کہ پیشۂ تدریس آج چمک دمک کھو چکا ہے! یعنی اس مقدس پیشے کی شان، تاثیر اور اخلاقی اثر ختم ہوتا جارہا ہے۔ نہ اساتذہ کو اپنے مقام کا احساس رہا ہے، نہ طلبہ میں استاد کے لیے ادب و احترام کی وہ چمک باقی رہی ہے جو کبھی مشرقی تہذیب کا خاصہ تھی۔

*بدقسمتی سے آج ہمارے ملک میں اساتذہ کو اصل تدریسی کاموں کے بجائے* غیر تدریسی اور غیر تعلیمی سرگرمیوں میں الجھا دیا گیا ہے۔الیکشن ڈیوٹی، مردم شماری، اسکالرشپ ڈیٹا اندراج، ووٹر لسٹ، آنگن واڑی سروے، اور طرح طرح کی سرکاری اسکیموں کی ذمہ داریاں اساتذہ پر لاد دی گئی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنا اصل کام، یعنی بچوں کی تعلیم و تربیت، دلجمعی سے نہیں کر پاتا۔ یہ ایک افسوسناک اور خطرناک رجحان ہے، جو نہ صرف تعلیمی معیار کو گرا رہا ہے بلکہ اساتذہ کو احساسِ کمتری اور بے بسی میں بھی مبتلا کر رہا ہے۔
اسی طرح سماج اور انتظامیہ کی جانب سے بھی استاد کے وقار کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ ایک وقت تھا جب گاؤں کے بزرگ بھی استاد کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے، اور طلبہ ان کے جوتے سیدھے کرنے کو سعادت سمجھتے تھے۔ مگر آج اکثر والدین اساتذہ پر انگلی اٹھاتے ہیں، سوشل میڈیا پر اُن کی بے عزتی عام ہوگئی ہے اور اسکول انتظامیہ بھی کئی بار اساتذہ کو صرف ایک کلرک یا درجہ چہارم ملازم کی نظر سے دیکھتی ہے اور ان کے ساتھ اسی انداز کا برتاؤ بھی کرتی ہے۔

*اساتذہ کی اصل ذمہ داری صرف نصاب مکمل کرانا نہیں* بلکہ طلبہ کی علمی، اخلاقی، جذباتی، نفسیاتی اور معاشرتی تربیت کرنا ہے۔ ان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ طلبہ کی شخصیت پر دیرپا اثر رکھتے ہیں۔ اگر استاد خود وقت کا پابند، دیانتدار، مہذب اور مثالی نہیں تو طلبہ میں ان صفات کی امید رکھنا بے کار ہے۔
گستاخی معاف! موجودہ دور میں کئی اساتذہ محض تنخواہ کے عوض کام کرنے لگے ہیں، گویا وہ پیشۂ درس و تدریس کو عبادت نہیں بلکہ ایک تجارتی معاملہ سمجھتے ہیں۔ اس کا بھی نتیجہ ہے کہ کئی اسکولوں میں تعلیم صرف کاروبار بن کر رہ گئی ہے۔ تعلیم کا مقصد محض ڈگریاں بانٹنا نہیں، بلکہ انسان سازی اور کردار سازی ہونا چاہیے۔

*ضرورت اس بات کی ہے کہ* اساتذہ کو دوبارہ ان کے مقدس مقام کا شعور دیا جائے۔ تربیتی ورکشاپس، اخلاقی تربیت، اور تعلیمی فلسفے پر مبنی نشستیں وقت کی اہم ضرورت ہیں اور یہ کام سرکاری یا انتظامی سطح پر نہیں بلکہ اساتذہ کی انجمنوں اور یونین کے ذریعہ کیا جانا چاہیے تاکہ ان میں خود احتسابی کا جذبہ پروان چڑھے اس لئے کہ بذاتِ خود اپنی اصلاح زیادہ موثر اور مستقل ہوتی ہے۔ اسی کے ساتھ حکومت و تعلیمی اداروں کو بھی اساتذہ کی معاشی، سماجی اور تعلیمی فلاح و بہبود پر توجہ دینی چاہیے، تاکہ وہ بے فکری سے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔

*اساتذہ اگر اپنی ذمہ داریاں پہچان لیں* اور پوری دیانت، لگن اور اخلاص سے طلبہ کی تربیت کریں، تو یقیناً ہماری نئی نسل نہ صرف علم سے آراستہ ہوگی بلکہ کردار کی پختگی، حب الوطنی، اور انسانیت کا پیکر بنے گی۔ دعا ہے کہ مولی تبارک و تعالیٰ اپنے حبیب علیہ السلام کے صدقے ہمارے اساتذہ کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے، نبھانے اور نسلِ نو کی بہتر رہنمائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ کیونکہ ایک اچھا استاد نہ صرف ایک طالبعلم کو بلکہ پوری نسل کو بدل سکتا ہے۔
***


 
Design by Wordpress Theme | Bloggerized by Free Blogger Templates