ریاستی گیت کی ادبی و ثقافتی اہمیت، تاریخ کے آئینے میں 


✍️رضوی سلیم شہزاد مالیگاؤں 

(9130142313) 


سن 2023 میں مہاراشٹر حکومت نے سرکاری طور پر حکم جاری کیا تھا کہ ریاست کی تمام زبانوں کی تمام نجی و سرکاری اسکولوں میں روزانہ اسکول اسمبلی میں پیش درس کے دوران ریاستی گیت "جئے جئے مہاراشٹر ماجھا، گرجا مہاراشٹر ماجھا" اس گیت کو گایا جائے۔ ایک سال بعد دوبارہ حکومت مہاراشٹر ڈیپارٹمنٹ آف اسکول ایجوکیشن اینڈ اسپورٹس نے اپنے سرکلر نمبر: سنکرنا-2024/P.No.127/SD-4 تاریخ: 15 مارچ 2024ء کو اسکولوں میں اس راجیہ گیت کو پڑھنا لازمی قرار دیا اور سختی کے ساتھ اس پر عمل آوری کے لئے افسران کو پابند کیا۔ 


ریاستی حکومت کے ان حکمناموں کی روشنی میں نئے تعلیمی سال 2025-26 کیلئے مالیگاؤں میونسپل کارپوریشن، ٹیچنگ ڈیپارٹمنٹ آفس کے ایڈمنسٹریٹیو آفیسر شری چندر کانت پاٹل نے 9/جولائی کے اپنے ایک حکمِ گشتی جاوک نمبر ایم.این.پی/محکمہ تعلیم/ استھاپنا/ 220/ 2025ء کے تحت شہر کی تمام میڈیم کی تمام سرکاری و نجی پرائمری و سیکنڈری اسکولوں میں اس گیت کو گانا لازمی قرار دیا ہے۔ اے او شری چندر کانت پاٹل کے اس حکمِ گشتی میں مذکورہ بالا حکومتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے کہ "آزادی کے امرت مہوتسو" پر ریاست کے نوجوانوں کو متاثر کرنے والا ریاستی گیت "جئے جئے مہاراشٹر ماجھا، گرجا مہاراشٹر ماجھا" ریاست کے تمام میڈیم اور تمام انتظامی سرکاری و نجی اسکولوں میں روزانہ سیشن کے آغاز سے پہلے قومی ترانہ، تلاوت، دعا وغیرہ کے ساتھ "جئے جئے مہاراشٹر ماجھا، گرجا مہاراشٹر ماجھا" گایا جائے گا۔ موصوف نے اسکول انتظامیہ کمیٹی سے امید کی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اسکولوں میں یومیہ سیشن شروع ہونے سے پہلے قومی ترانہ، تلاوت، دعا، عہد وغیرہ کے ساتھ ریاستی ترانہ "جئے جئے مہاراشٹرا، گرجا مہاراشٹرا ماجا" بلند آواز سے گایا جائے۔


اپنے حکمِ گشتی کے آخری میں اے او موصوف نے واضح کیا ہے کہ متعلقہ حکومتی حکم پر سختی سے عمل کیا جانا ضروری ہے۔ اسکولوں میں دورانِ وزٹ اگر پایا گیا کہ کوئی اسکول مذکورہ حکم پر عمل نہیں کررہا ہے تو متعلقہ اسکول کے خلاف تادیبی کارروائی کے لیے حکومت کو تجویز روانہ کی جائے گی۔


اس گیت کو نوجوان نسل اور طلبہ تک پہنچانے کا مقصد بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نوجوان نسل میں مہاراشٹر کی تاریخ، بہادری، ثقافت، محنت اور خودداری کا شعور بیدار کرنا ہی اس گیت کا پیغام ہے جس میں مہاراشٹر کے عظیم مجاہد شیواجی مہاراج کی میراث کا ذکر کرتے ہوئے کسانوں اور مزدوروں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔

-----------------------------------------------



*🏛️ مہاراشٹر کے ریاستی گیت کا تاریخی، ادبی اور ثقافتی پس منظر*



یہ گیت پہلی بار 1960 میں مہاراشٹر ریاست کے قیام کے بعد گایا گیا، جب بمبئی اسٹیٹ سے الگ ہوکر مہاراشٹر کو ایک علاحدہ ریاست کا درجہ دیا گیا۔ اس گیت کو مہاراشٹر کے مشہور قومی و عوامی شاعر راجہ بڈھے نے لکھا تھا، جو مراٹھی زبان کے ملک گیر شہرت یافتہ ادیب اور محب وطن شاعر تھے۔


*مہاراشٹر کے ریاستی گیت کی ادبی خصوصیات:*

یہ گیت مارشل انداز میں لکھا گیا ہے، جس میں ولولہ، فخر، جذبہء حبّ الوطنی، اور ریاستی غیرت نمایاں ہے۔اس گیت میں شیواجی مہاراج، محنت کش عوام، اور ان کی دلیری جیسے عناصر کو مہاراشٹر کی شناخت قرار دیا گیا ہے۔ تشبیہات اور استعارے خوبصورتی سے استعمال ہوئے ہیں جیسے "آسمان کی سلطنت"، "فولادی من" اور "گرمی میں جلنا" وغیرہ

-----------------------------------------------


*🌺اردو رسم الخط میں مہاراشٹر راجیہ گیت🌺*


جئے جئے مہاراشٹر ماجھا، گرجا مہاراشٹر ماجھا

جئے جئے مہاراشٹر ماجھا، گرجا مہاراشٹر ماجھا۔۔


بِھیتی نا آمہا تُجھی مُڑی ہی، گڑگڑناریا نَبھا 

اسَماناچیا سُلتانی لا، جباب دیتی جِبھا

سَہیادری چیا سِینھ گَرجتو، شِیو شَنبھو راجا

دَری دری تُن ناد گُنجلا، مہاراشٹر ماجھا

جئے جئے مہاراشٹر ماجھا، گرجا مہاراشٹر ماجھا۔۔

جئے جئے مہاراشٹر ماجھا، گرجا مہاراشٹر ماجھا۔۔


کاڑیا چھاتی وَری کورلی، ابھیماناچی لِینی 

پَولادی من گَٹے کِھیڑتی، کھیل جیو گِھینی

دارِدرا چیا اُنهات شِجلا، نِڈھڑا چیا گھامانے بِھجلا

دیش گَوروا ساٹھی جھجلا، دِلّی چے ہی تخت راکھیتو، مہاراشٹر ماجھا

جئے جئے مہاراشٹر ماجھا، گرجا مہاراشٹر ماجھا، 

جئے جئے مہاراشٹر ماجھا۔۔

-----------------------------------------------


*🌍🌺مہاراشٹر راجیہ گیت کا اردو ترجمہ🌺*


مہاراشٹر کی جے ہو، مہاراشٹر گونجے، للکارے

مہاراشٹر کی جے ہو، مہاراشٹر گونجے، للکارے

ہم تجھ سے نہیں ڈرتے، اے گرجنے والے آسمان۔

آسمان کی سلطانی کے لیے ہماری زبان للکار رکھتی ہے۔ (مُراد ہم ہواؤں پر ہمارا راج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔) 


سہیادری کا شیر دھاڑتا ہے، شیو شمبھو بادشاہ (مراد شیواجی مہاراج) 


پہاڑوں کے دامن میں چاروں طرف مہاراشٹر کی آواز گونج رہی ہے۔

ہم نے (پہاڑوں کے سیاہ سینے پر) فخر و غرور کا غار کندہ کیا ہے۔

ہماری فولادی کلائیاں جان لیوا کھیل کھیلتی ہیں۔

ہم غربت کی دھوپ میں (تپ کر) کُندن بنے ہیں۔

ہم شدید محنت کے پسینے میں بھیگے ہوئے ہیں۔ (مراد محنت کش ہیں۔) 


-----------------------------------------------


*🌺مہاراشٹر کے ریاستی گیت کی تشریح🌺*


*پہلے بند کی تشریح:*

ہم ان لوگوں سے نہیں ڈرتے جو ہمارے خلاف سازشیں کرتے ہیں اور ہمارے خلاف بولتے ہیں۔ گرجتے بادل ہمیں ڈرا نہیں سکتے۔ ان کا جواب دینے کے لیے ہماری زبانیں کافی ہیں۔ ایسی ہی تعلیم ہمیں چھترپتی شیواجی نے دی ہے، سہادریوں کے شیر کی تعلیمات کے نعرے گھر گھر جا رہے ہیں۔ یہ مہاراشٹر میرا ہے۔


*دوسرے بند کی تشریح:*

مہاراشٹر کے لوگ بہادر ہیں۔ ان کے سیاہ سینے پر مہاراشٹر کا فخر نقش ہے۔ ان کی کلائیاں فولاد کی بنی ہوئی ہیں۔ اس لیے وہ اپنی جانوں سے کھیلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ مہاراشٹر کے لوگ غربت کی دھوپ میں تپتے ہیں، محنت کرکے پسینہ بہاتے ہیں۔ نسل در نسل لوگوں نے ملک کی شان کے لیے محنت کی ہے۔ مہاراشٹر ایسا ہے کہ دہلی کے تخت کی حفاظت بھی کر سکتا ہے۔

-----------------------------------------------

 


پیشۂ درس و تدریس: اساتذہ، سماج اور انتظامیہ کے ٹیم ورک سے تربیتی عمل مکمل ہوتا ہے۔

(روزنامہ انقلاب ممبئی کے 13/جولائی 2025ء کے اداریہ سے متاثر ہوکر لکھی گئی تحریر)

تحریر: رضوی سلیم شہزاد، مالیگاؤں
9130142313

*تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد* اور اس کے مستقبل کا ضامن ہوتی ہے، اور اس تعلیمی عمل کا سب سے اہم کردار معلم یعنی استاذ ادا کرتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب استاد کو روحانی والد، سماجی رہنما اور علم و اخلاق کا مینار سمجھا جاتا تھا۔ آج اگر معاشرے میں بگاڑ، بد اخلاقی، جہالت، بے راہ روی اور خودکشی جیسی وبا عام ہورہی ہے تو اس کا ایک بڑا سبب خود نظامِ تعلیم میں پائی جانے والی کمزوریاں، اساتذہ کی ذمہ داریوں سے غفلت، سماج کی اساتذہ کرام سے اُکتاہٹ و بے رغبتی اور انتظامیہ کی جانب سے اساتذہ پر لادی جانے والی غیر تدریسی سرگرمیاں بھی ہیں۔

*اساتذہ کا پیشہ محض روزگار یا ملازمت نہیں* بلکہ یہ ایک مقدس فریضہ، نبوی وراثت اور انسانی تربیت کا منصب ہے۔ استاد محض کتاب پڑھانے والا نہیں بلکہ وہ ایک رہبر، مشیر، کردار ساز اور قوم کا معمار ہوتا ہے۔ آج کے دور میں جب دنیا معاشی و سائنسی ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھ رہی ہے، ہمارے تعلیمی ادارے اور اساتذہ کہیں نہ کہیں اپنی اصل روح سے دور ہوتے جارہے ہیں، جس سے سماج میں ان کا مرتبہ کم ہوتا جارہا ہے۔ ایک استاد کے لیے سب سے ضروری ہوتا ہے اپنے کردار و اخلاق کو مجروح ہونے سے بچانا مگر افسوس! کم کم ہی سہی مگر بہت سے اساتذہ اپنے کردار و اخلاق پر حرف آنے کی بالکل بھی پرواہ نہیں کرتے، کسی شاعر نے کہا ہے کہ

*اپنے کردار کو موسم سے بچائے رکھنا*
*لَوٹ کر پھول میں واپس نہیں آتی خوشبو*

13/جولائی 2025ء اتوار کے روزنامہ انقلاب ممبئی کے حالیہ اداریہ میں بجا طور پر نشاندہی کی گئی ہے کہ پیشۂ تدریس آج چمک دمک کھو چکا ہے! یعنی اس مقدس پیشے کی شان، تاثیر اور اخلاقی اثر ختم ہوتا جارہا ہے۔ نہ اساتذہ کو اپنے مقام کا احساس رہا ہے، نہ طلبہ میں استاد کے لیے ادب و احترام کی وہ چمک باقی رہی ہے جو کبھی مشرقی تہذیب کا خاصہ تھی۔

*بدقسمتی سے آج ہمارے ملک میں اساتذہ کو اصل تدریسی کاموں کے بجائے* غیر تدریسی اور غیر تعلیمی سرگرمیوں میں الجھا دیا گیا ہے۔الیکشن ڈیوٹی، مردم شماری، اسکالرشپ ڈیٹا اندراج، ووٹر لسٹ، آنگن واڑی سروے، اور طرح طرح کی سرکاری اسکیموں کی ذمہ داریاں اساتذہ پر لاد دی گئی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنا اصل کام، یعنی بچوں کی تعلیم و تربیت، دلجمعی سے نہیں کر پاتا۔ یہ ایک افسوسناک اور خطرناک رجحان ہے، جو نہ صرف تعلیمی معیار کو گرا رہا ہے بلکہ اساتذہ کو احساسِ کمتری اور بے بسی میں بھی مبتلا کر رہا ہے۔
اسی طرح سماج اور انتظامیہ کی جانب سے بھی استاد کے وقار کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ ایک وقت تھا جب گاؤں کے بزرگ بھی استاد کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے، اور طلبہ ان کے جوتے سیدھے کرنے کو سعادت سمجھتے تھے۔ مگر آج اکثر والدین اساتذہ پر انگلی اٹھاتے ہیں، سوشل میڈیا پر اُن کی بے عزتی عام ہوگئی ہے اور اسکول انتظامیہ بھی کئی بار اساتذہ کو صرف ایک کلرک یا درجہ چہارم ملازم کی نظر سے دیکھتی ہے اور ان کے ساتھ اسی انداز کا برتاؤ بھی کرتی ہے۔

*اساتذہ کی اصل ذمہ داری صرف نصاب مکمل کرانا نہیں* بلکہ طلبہ کی علمی، اخلاقی، جذباتی، نفسیاتی اور معاشرتی تربیت کرنا ہے۔ ان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ طلبہ کی شخصیت پر دیرپا اثر رکھتے ہیں۔ اگر استاد خود وقت کا پابند، دیانتدار، مہذب اور مثالی نہیں تو طلبہ میں ان صفات کی امید رکھنا بے کار ہے۔
گستاخی معاف! موجودہ دور میں کئی اساتذہ محض تنخواہ کے عوض کام کرنے لگے ہیں، گویا وہ پیشۂ درس و تدریس کو عبادت نہیں بلکہ ایک تجارتی معاملہ سمجھتے ہیں۔ اس کا بھی نتیجہ ہے کہ کئی اسکولوں میں تعلیم صرف کاروبار بن کر رہ گئی ہے۔ تعلیم کا مقصد محض ڈگریاں بانٹنا نہیں، بلکہ انسان سازی اور کردار سازی ہونا چاہیے۔

*ضرورت اس بات کی ہے کہ* اساتذہ کو دوبارہ ان کے مقدس مقام کا شعور دیا جائے۔ تربیتی ورکشاپس، اخلاقی تربیت، اور تعلیمی فلسفے پر مبنی نشستیں وقت کی اہم ضرورت ہیں اور یہ کام سرکاری یا انتظامی سطح پر نہیں بلکہ اساتذہ کی انجمنوں اور یونین کے ذریعہ کیا جانا چاہیے تاکہ ان میں خود احتسابی کا جذبہ پروان چڑھے اس لئے کہ بذاتِ خود اپنی اصلاح زیادہ موثر اور مستقل ہوتی ہے۔ اسی کے ساتھ حکومت و تعلیمی اداروں کو بھی اساتذہ کی معاشی، سماجی اور تعلیمی فلاح و بہبود پر توجہ دینی چاہیے، تاکہ وہ بے فکری سے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔

*اساتذہ اگر اپنی ذمہ داریاں پہچان لیں* اور پوری دیانت، لگن اور اخلاص سے طلبہ کی تربیت کریں، تو یقیناً ہماری نئی نسل نہ صرف علم سے آراستہ ہوگی بلکہ کردار کی پختگی، حب الوطنی، اور انسانیت کا پیکر بنے گی۔ دعا ہے کہ مولی تبارک و تعالیٰ اپنے حبیب علیہ السلام کے صدقے ہمارے اساتذہ کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے، نبھانے اور نسلِ نو کی بہتر رہنمائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ کیونکہ ایک اچھا استاد نہ صرف ایک طالبعلم کو بلکہ پوری نسل کو بدل سکتا ہے۔
***


 




 


 


 
Design by Wordpress Theme | Bloggerized by Free Blogger Templates